ہمیں تعبیر پہلے دی گئی پھر خواب اترے

ہمیں تعبیر پہلے دی گئی پھر خواب اترے
کتاب زندگی کے اس طرح کچھ باب اترے


مری آنکھوں سے لے لے روشنی اور نور کر دے
کسی قیمت پہ مالک منظر شب تاب اترے


کھلے برتن اٹھا کر رکھ دئے جو بارشوں میں
یہاں وہ رہ گئے خالی وہاں سیلاب اترے


تحائف کی جنہیں امید تھی وہ منتظر ہیں
مسافر آ چکا ہے اب ذرا اسباب اترے


بہت آنسو بہائے چاہتوں کی ابتدا میں
بڑی مشکل سے ہم پر عشق کے آداب اترے


سمندر نے کہانی مختصر کر کے کہا بس
بہت گرداب اترے اور بس گرداب اترے


خزاں سے نسبتیں اتنی پرانی اور پھر بھی
انہی لوگوں پہ لہجے اس قدر شاداب اترے