ہماری طرح کوئی دوسرا ہوا بھی نہیں

ہماری طرح کوئی دوسرا ہوا بھی نہیں
وہ درد دل میں رکھا ہے جو لا دوا بھی نہیں


ہمارا درد عجب مرحلے میں ہے کہ جہاں
وہ بے سخن بھی نہیں اور لب کشا بھی نہیں


اسی کو دیکھتی رہتی ہے چشم شوق مدام
جو غم ابھی سر شاخ الم کھلا بھی نہیں


عجیب طرح سے روشن ہوئی ہے خلوت غم
کہ روشنی ہے بہت اور دیا جلا بھی نہیں


یہ دشت شوق بہت عافیت گزیدہ ہے
کہ اب یہاں پہ تو امکان نقش پا بھی نہیں


گزر ہے کیسی فضاؤں سے آج طائر عشق
کہ زیر بازوئے پرواز اب خلا بھی نہیں


میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں


یہ عشق خاک ہی ہونے کا نام تھا سو ہمیں
صلہ ملا بھی بہت اور صلہ ملا بھی نہیں


یہ عصر نو کی چتاؤں میں آگ کیسی ہے
کہ روح راکھ ہوئی اور بدن جلا بھی نہیں


تمام عمر عجب وضع داریوں میں کٹی
اسے عزیز رکھا جو ہمارا تھا بھی نہیں