ہم سفر
تو نیلے آکاش کی رانی سندر تیرا بھیس
بیٹھ کے اڑن کھٹولے پر تو گھومے دیس بدیس
تیرے ہونٹوں کے پھولوں سے مہکے یہ سنسار
تیرے میٹھے بول کہ جیسے پائل کی جھنکار
تیری زلفوں کی خوشبو اپنی باہیں پھیلائے
ساون کی بدلی کی صورت نگری نگری جائے
تیری چال میں مست پون کا البیلا لہراؤ
یا جیسے پدما کی لہروں پر اک بہتی ناؤ
تیری چتون کے چندا نے سب کو راہ دکھائی
لیکن تیرے پیار کی منزل تیرے ہاتھ نہ آئی
جانے اپنے زخمی دل میں کتنے درد چھپائے
دوجے کا دل بہلانے کو تو پل پل مسکائے