ہم کو کب ہے یہ شکوہ ہم رہے ہیں کب تنہا
ہم کو کب ہے یہ شکوہ ہم رہے ہیں کب تنہا
غم بھی ساتھ آئے ہیں ہم چلے ہیں جب تنہا
مصلحت پرستوں کی پر فریب محفل میں
دیکھیے تو سب یکجا جانچئے تو سب تنہا
وہ تھا جب تو جلوے تھے وہ نہیں تو یادیں ہیں
ہم رہے نہ جب تنہا اور ہیں نہ اب تنہا
دوستوں سے کھنچنے کی وجہ کوئی تو ہوگی
ورنہ کون رہتا ہے ایسے بے سبب تنہا
صاحب عمل سب ہی رفعتوں کے حامل ہیں
پستیوں میں بیٹھے ہیں صاحب نسب تنہا
منحرف نہ ہو حق سے حق سے منحرف ہو کر
تم بھی رہ ہی جاؤ گے مثل بو لہب تنہا
کون روک سکتا تھا بس ہمیں نے روکے ہیں
ظلم و جبر و جور ان کے اور ہم غضب تنہا
آپ نے گزارے ہیں آپ کیا گزاریں گے
جس طرح گزارے ہیں ہم نے روز و شب تنہا
ہیں وطن فروشوں میں لن ترانیاں کتنی
اور ہم کہ بیٹھے ہیں سی کے اپنے لب تنہا