ہم آج خود کو تمہارا غلام کرتے ہیں
ہم آج خود کو تمہارا غلام کرتے ہیں
ہر ایک سانس تمہارے ہی نام کرتے ہیں
سکھا گئی ہیں ادب ڈالیاں شجر کی ہمیں
لو ہم جبیں کو جھکا کر سلام کرتے ہیں
جنہیں ہے فکر یہاں پہ غریب لوگوں کی
وہ ہی غریبوں کا جینا حرام کرتے ہیں
سرائے میں نہ رکیں گے نہ کسی بستی میں
ہم عشق والے ہیں دل میں قیام کرتے ہیں
قفس کی قید سے اپنی رہائی کی ہر دم
گزارشیں یہ پرندے تمام کرتے ہیں
انہیں نے جیتی ہیں بازی بڑی بڑی سارقؔ
وہی جو کچھوے کے جیسے خرام کرتے ہیں