ہلاک جستجو تھا حرص کا مارا نہ تھا پہلے

ہلاک جستجو تھا حرص کا مارا نہ تھا پہلے
دہی دل ہے مگر اتنا بھی آوارہ نہ تھا پہلے


مناظر باغ‌‌ و بن کے دل کشا بھی دل شکن بھی تھے
مگر فطرت شکن یوں وقت کا دھارا نہ تھا پہلے


جو ہوتا گلشن خوبی تو ہوتی شان محبوبی
وہی انساں ہے لیکن شاخ صد پارہ نہ تھا پہلے


سکوں تھا سایۂ طوبیٰ جو میٹھی نیند سوتے تھے
کہ ہر گھر خانۂ اسکندر و دارا نہ تھا پہلے


چمن کے ساتھ جلنا ہے صفیران چمن کو بھی
تمازت تھی مگر پھولوں میں انگارا نہ تھا پہلے


یہ دنیا سائباں ڈھونڈے گی پھر اگلے زمانوں میں
کہ زیر آسماں یہ قہر نظارا نہ تھا پہلے


میں جویائے نشاط و غم ہوں کوہ و باغ و صحرا میں
کہ مارا ہجر کا تھا حسن کا مارا نہ تھا پہلے


ستارہ تھا کوئی جس سے منور تھی یہ تنہائی
نظر میں ضو فشاں یہ آسماں سارا نہ تھا پہلے