حیرت سرائے حرف میں آؤ تو بات ہے
حیرت سرائے حرف میں آؤ تو بات ہے
اور واپسی کی راہ نہ پاؤ تو بات ہے
خوشبو کے بھید کھلتے نہیں چار روز میں
پھولوں کے ساتھ عمر بتاؤ تو بات ہے
ایسے کھلو کھلے ہے غزل جیسے میرؔ کی
آ کر بھی یعنی ہاتھ نہ آؤ تو بات ہے
لے کر تمہارے گیت جو اترے دلوں کے پار
کاغذ پہ ایسی ناؤ بناؤ تو بات ہے
کیا لطف آئینے سے ملی روشنی میں ہے
نیناؔ دیے کی قید میں آؤ تو بات ہے