ہیں مزاج آسماں پہ جس تس کے
ہیں مزاج آسماں پہ جس تس کے
ناز اٹھائیں بھی ہم تو کس کس کے
بجلیوں کے سنہری حرفوں میں
بادلوں پر ہیں دستخط کس کے
آنکھ سے گر چھلک نہیں پاتے
دل پہ گرتے ہیں اشک رس رس کے
جانے کب ہووے دیدہ ور پیدا
دیدے پتھرا گئے ہیں نرگس کے
پاؤں چادر میں رہ نہ پائیں گے
ہاتھ پھیلے رہیں گے جس جس کے
آرزوؤں کے سوکھتے گلبن
منتظر یاسیت کی ماچس کے
کم سے کم گھر کو گھر تو رہنے دیں
رکھیں آفس کو اندر آفس کے
عکس دوراں نقیبؔ کی غزلیں
سلسلے چند رطب و یابس کے