ہے ترجمان الم اور ادیب ہے سردی

ہے ترجمان الم اور ادیب ہے سردی
تبھی تو نوک قلم سے قریب ہے سردی


دماغ عرش پہ ہے کانپتا زمین پہ ہے
اے بندے درس لے عمدہ خطیب ہے سردی


میں شال اوڑھ کے جو بام پر ٹہلتی ہوں
پیام دوست کی شاید نقیب ہے سردی


لرزتی کانپتی میں خود سے کہتی رہتی ہوں
میں ملنے جاؤں تو کیسے رقیب ہے سردی


ہوا بھی سرد ہے پت جھڑ بھی ہے درختوں پر
فراق و ہجر میں لپٹی عجیب ہے سردی


بسی ہوئی ہے فضا میں وہ فرحت انگیزی
سلگتے زخموں کی بہتر طبیب ہے سردی


سبیلہؔ موسم سرما بھی ایک نعمت ہے
وہ خوش نصیب ہیں جن کو نصیب ہے سردی