ہے تا حد نظر نیلا سمندر
ہے تا حد نظر نیلا سمندر
بدن میں پھڑپھڑاتا ہے کبوتر
اب اس کا نام تک باقی نہیں ہے
وہی جو جی رہا تھا میرے اندر
بتا اے دل مرے بجھتے ہوئے دل
یہ کس آسیب کا سایہ ہے تجھ پر
معانی کا ہے باطن سے تعلق
بہت کچھ کہہ گئے چپ چپ سے منظر
مری دہلیز پر چپکے سے پاشیؔ
یہ کس نے رکھ دی میری لاش لا کر