ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق

ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق
آفرینہا بر سبق خوانان عشق


زہرۂ دوزخ ہے آگے اس کے آب
الامان از آتش سوزان عشق


ہے رہا قید غم کونین سے
پائے تا سر قیدیٔ زندان عشق


تنگ رکھتا ہے دوا کے نام سے
مبتلائے درد بے درمان عشق


خون دل پیتا ہے اور ہے جانتا
نعمت عظمی اسے مہمان عشق


غور کر دیکھا تو ہفت اقلیم میں
حکمراں ہے بے گماں سلطان عشق


کشتیٔ گردوں سراپا ڈوب جائے
جوش میں آوے اگر طوفان عشق


بندہ کو مولا بناتا ہے مدام
کس قدر ہے یے عیاں احسان عشق


بھول جاوے زہد و تقویٰ زاہدا
گر کرے تو سیر کفرستان عشق


فیض سے آثمؔ شہ خادم کے ہے
سیر میں اپنی بہارستان عشق