ہے دل میں احساس درد اب تک اگرچہ دیوانہ ہو گیا ہوں
ہے دل میں احساس درد اب تک اگرچہ دیوانہ ہو گیا ہوں
جہاں خودی ہے نہ بے خودی ہے اک ایسی دنیا میں کھو گیا ہوں
ہوا موافق بھی ہو عزیزو تو اس کنارے سے دور رہنا
میں بارہا آ کے اس کنارے پہ اپنی کشتی ڈبو گیا ہوں
یہی تو انجام جستجو ہے کہ ٹھوکریں کھا کے بت کدوں کی
جبین رسوا کو رکھ کے اپنی حرم کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوں
یہ ناز پروردگان فطرت مری اسیری کو خاک سمجھیں
ملا ہے کچھ اختیار جب سے میں اور مجبور ہو گیا ہوں
جو قافلہ اس طرف سے گزرے وہ ایک ٹھوکر مجھے لگا دے
جمیلؔ میں بیچ راستے میں اسی بھروسے پہ سو گیا ہوں