ہے عام ویسے تو کہلائے جو نقاب یہاں
ہے عام ویسے تو کہلائے جو نقاب یہاں
نمایاں جسم جو کر دے وہ ہے حجاب یہاں
نہ ذوق علم ہے ہم میں نہ اکتساب یہاں
وقار کھویا ہے کتنا نہیں حساب یہاں
ہمیں تھے وہ کہ جو دنیا میں حکمراں تھے کبھی
ہمیں ہیں اب کہ ہے غربت ہے اضطراب یہاں
کتاب خیر تو رکھ دی ہے ہم نے طاقوں میں
رکھا ہے کھول کے ہر ایک شر کا باب یہاں
گناہ کرتے ہیں بے خوف بے جھجھک ہم سب
ہے فخر عصیاں پہ جیسے کوئی ثواب یہاں