حدیث درد کو آخر بیاں تو ہونا تھا
حدیث درد کو آخر بیاں تو ہونا تھا
جو کرب دل میں چھپا تھا عیاں تو ہونا تھا
وہ پاس رہتے ہوئے فاصلوں کا قائل تھا
اس اہتمام کو پھر داستاں تو ہونا تھا
زمیں کا تاج تھا وہ شخص اپنی ہستی میں
زمیں سے بڑھ کے اسے آسماں تو ہونا تھا
دکھوں کی دھوپ کے اس دور بے مروت میں
مجھے کسی کے لیے سائباں تو ہونا تھا
تجھے یہ کس نے کہا تھا حساب مانگ اس سے
اب ایسی بات پہ جاں کا زیاں تو ہونا تھا
جہاں سبھی تھے وہاں پر نہیں تھا میں لیکن
جہاں کوئی بھی نہیں تھا وہاں تو ہونا تھا
جو میں نہ ہوتا سر دار دوسرا ہوتا
کسی کو خلق خدا کی زباں تو ہونا تھا
وہ خود پسند جفا کار شخص تھا انورؔ
نتیجتاً اسے بے کارواں تو ہونا تھا