حال دل سنانے میں عمر بیت جاتی ہے
حال دل سنانے میں عمر بیت جاتی ہے
دل میں گھر بنانے میں عمر بیت جاتی ہے
یوں تو روز کہتے ہیں ان کو بھول جائیں گے
ہاں مگر بھلانے میں عمر بیت جاتی ہے
یوں تو مسکرانے کو روز مسکراتے ہیں
کھل کے مسکرانے میں عمر بیت جاتی ہے
زندگی ہمیشہ جب تیرگی کی زد میں ہو
شمع اک جلانے میں عمر بیت جاتی ہے
شوق جستجو میں ہم لا مکاں سے گزرے ہیں
خود کو آزمانے میں عمر بیت جاتی ہے
اس لئے نہیں کرتے ان سے کوئی وعدہ ہم
وعدے کے نبھانے میں عمر بیت جاتی ہے
موت زندگی میں کچھ فاصلہ نہیں لیکن
پھر بھی آنے جانے میں عمر بیت جاتی ہے
تنکا تنکا جوڑا ہے ہم نے رات دن اخترؔ
آشیاں سجانے میں عمر بیت جاتی ہے