حال دل تباہ کسی نے سنا کہاں

حال دل تباہ کسی نے سنا کہاں
پوچھے مگر کوئی تو لب مدعا کہاں


طے کر رہا ہوں خواب و حقیقت کے فاصلے
مانا کہ میں کہاں تری آواز پا کہاں


عالم تمام پیرہن تار تار ہے
محشر سکوت نیم شبی کا اٹھا کہاں


وہ درد جستجوئے گل و نغمہ تھی جسے
خود اپنے ریگ زار میں گم ہو گیا کہاں


اس درجہ بے رخی پہ پشیماں نہ ہو کوئی
خود مجھ کو احترام شعور وفا کہاں