کیا واقعی جاوید آفریدی فٹ بال کلب چیلسی خرید رہے ہیں؟

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ میں ایک جفا کش اور سر فروش قبیلہ آفریدی آباد ہے۔   1948 میں جب پاکستانی قبائل اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارت کے چنگل سے آزاد کروانے کشمیر پہنچے تھے تو آفریدی قبیلہ اگلی صفوں میں سر پے کفن باندھے موجود تھا۔  پھر جب امریکی افغانستان  پر حملہ آور ہوئے تو بھی اس قبیلے کے شیر جوان: بھائی تم کیا تاریخ پاکستان میں آفریدی قبیلے کے کردار پر روشنی ڈالنے بیٹھے ہو یا فٹ بال کلب چیلسی کی خریداری کےسلسلے میں اندر کی کچھ خبر لائے ہو؟

پیارے بھائی صبر تو کرو اسی طرف آ رہا تھا، بس شروع میں  کِک ذرا غلط لگ گئی تو ادھر اُدھر ہو گیا۔ اصل میں کھیل کے  میدان میں جو آج کل جاوید نامہ زور و شور سے پڑھا جا رہا ہے وہ ہے بھی تو اسی قبیلے کے چشم و چراغ کا۔ پہلے جب پشاور زلمی میں اس  چشم و چراغ نے اداکاراؤں کا جمعہ بازار لگایا تھا تو لوگوں کی آنکھیں  کھل گئی تھیں، آج جب چیلسی کی خریداری کی باتیں وہ کر  رہا ہے تو لوگوں کے منہ  کھل گئے ہیں۔ یہ تو پھر ہوتا ہی ہے بھائی۔ کامیابی کے کوئی جھنڈے  گاڑے تو کسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے تو کسی کی آنکھیں۔  خیر۔۔۔۔!

  اب سے چار پانچ سات گھنٹے پہلے تک کی  اطلا عات کے مطابق چیلسی کی خریداری کے لیے دس سے زائد بڑے بڑے مگر مچھ میدان میں آ چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے ان میں زیادہ تر امریکی ہیں۔ چیلسی کے اس وقت کے اسرائیلی روسی مالک رومن ابرامووچ نے کہا ہے تین ارب پاؤنڈ سے نیچے کوئی مجھ سے بات نہ کرے۔ اخبارات بتا رہے ہیں اس کے کلب کی اوقات میرا مطلب ورتھ 2,5بلین ڈالر کی ہے۔ باقی اب وہ بیچ کتنے میں پاتے ہیں، اس بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہاں البتہ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں چیلسی کلب دنیا کے بہترین فٹ بال کلبوں میں سے ایک ہے۔  فوربز  نے اسے ساتواں  بڑا کماؤ پوت فٹ بال کلب قرار دیا ہے۔ اپریل 2021 میں فوربز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق 2020 میں چیلسی کا  ریونیو  520 ملین رہا، جبکہ اس میں اس کی ورتھ تین بلین ڈالر بتائی گئی۔  کیوں بھئی آنکھیں اور منہ کھلے کہ نہیں؟ ہمارے لیڈران چھے بلین کی خاطر آئی ایم ایف کے آگے پورے پاکستان کی ناک رگڑوا رہے ہیں اور ادھر ایک فٹ بال کلب کی ورتھ  تین بلین ڈالر ہے۔ یعنی پاکستانی عوام مہنگائی اور ٹیکس کے نیچے دب کر  ایسے دو فٹ بال کلب بھی نہیں خرید پائے گی۔ بھئی، پاکستانی عوام بیچاری نہیں خرید پائے گی لیکن اس کے لیے جاوید آفریدی  جیسا ایک سرمایہ دار ہو تو وہ ہی کافی ہے۔  اسے کہتے ہیں عدم مساوات کی کلاسک مثال!

  خیر، چیلسی کی خریداری میں دلچسپی کو جاوید آفریدی صاحب نے خود کنفرم کیا ہے، لہٰذا یہ کوئی افوا ہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کچھ سعودی اور برطانوی سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر یا مدد سے وہ اسے خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  مجھے سمجھ نہیں آ رہی، میری طرح آپ کے دل میں جلن کس چیز کی ہو رہی ہے؟ محنت کی ہے آفریدی صاحب نے۔ ہائر جیسی کمال کی الیکٹرونک کمپنی ہے ان کی۔ پھر برطانوی کار مینوفیکچرر ایم جی موٹرز کو پاکستان میں بھی یہ  لائے ہیں۔ سات سال سے پشاور زلمی سے کما  رہے ہیں۔ پھر ساؤتھ آفریقہ کی کرکٹ لیگ میں بھی ایک ٹیم انہوں نے خرید رکھی ہے۔ صرف سینتیس سال کی عمر میں وہ اتنا کچھ کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے ایک بڑی چھلانگ لگائی ہے تو آپ کو کیا مسئلہ ہو رہا ہے۔  آپ کمانا چاہتے ہو تو میدان کھلا ہے، جاؤ  کماؤ۔ کس نے روکا ہے؟ خود کرنا کرانا کچھ نہیں، جب کسی اور نے کچھ کر جانا تو  اس میں کیڑے نکالنا۔چائے کا کپ پکڑو اور  آرام سے تماشا دیکھو۔    ایکشن اچھا لگے تو  تالیاں بجا دینا، نہ لگے اچھا تو ناک چڑھا کر اگنور مارنا۔ باقی تبصرے وبصرے تو تم کر ہی لو گے۔ بس اتنا ہی  تمہارے بس میں ہے۔

متعلقہ عنوانات