گلشن میں ابھی جشن کا ہنگام نہیں ہے

گلشن میں ابھی جشن کا ہنگام نہیں ہے
گردش میں ابھی گردش ایام نہیں ہے


پھینکی تو ہیں ہم نے بھی ستاروں پہ کمندیں
پرواز ابھی اپنی لب بام نہیں ہے


ہر گوشہ چمن کا مجھے مقتل سا لگا ہے
ڈھونڈے سے بھی قاتل کا کہیں نام نہیں ہے


کلیوں کے لبوں پر ابھی پھیکا ہے تبسم
پھولوں میں ابھی نامہ و پیغام نہیں ہے


ہے تیز بہت قافلۂ صبح بہاراں
آغاز تو ہر چیز کا انجام نہیں ہے