گوانتانامو سے نکلے ایک قیدی نے قیدیوں کے آپسی تعلقات کے بارے میں کیا بتایا؟

میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا   جہاں   مذہبی   اقدار جیسا کہ ہمدردی، بھائی چارہ اور اور حسن سلوک پر بہت زور دیا جاتا ہے۔   میں ان اخلاقی اقدار پر اپنے چھوٹے سے یمنی گاؤں میں عمل درامد بھی کیا کرتا تھا۔  گھر اور اسکول دونوں جگہ مجھے سکھایا جاتا کہ حضور نبی پاک ﷺ    کے نمونے کی پیروی کرنی ہے۔  مجھے آپ ﷺ  کی حدیث "مجھے   اخلاقیات   کو کامل بنانے کے لیے ہی بھیجا گیا ہے" سب سے زیادہ پسند تھی۔حضور نبی پاک ﷺ کی اس حدیث  کی صحیح   سمجھ  سالوں بعد مجھے گوانتانامو میں اپنے  ساتھی قیدیوں سے میل جول کے دوران آئی۔     ہم نے اپنے مشترکہ عقیدے کے باعث  اپنا ایسا رشتہ استوار کیا جو  کہ    بدترین اذیتوں اور مظالم  کا سامنا کرنے کے باوجود بھی کبھی توڑا نہ جا سکا۔

                    2001 کے موسم خزاں میں میں افغانستان میں سفر کر رہا تھا جب مجھے مقامی جنگجوؤں نے اغوا کر لیا۔  پھر انہوں نے مجھے القاعدہ کا ایک سرغنہ قرار دے کر مجھے امریکیوں ے ہاتھوں بیچ دیا۔ میری عمر اس وقت صرف اٹھارہ برس تھی۔  اس کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے فروری 2002 میں گوانتانامو  منتقل کر دیا گیا۔  بالکل دوسرے قیدیوں کی طرح  میں بھی نہیں جانتا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیوں ہوں۔اور  کیوں وہاں  ہر وقت مار پیٹ  اور چیخ چنگھاڑ  ہوتی ہے۔ میں  خوفزدہ تھا، الجھن میں تھا، غصے میں تھا اور اکثر مستقل  بدلتے  اصولوں کے خلاف بغاوت کر دیا کرتا تھا۔   میں چودہ سال گوانتانامو  میں قید رہا بلکہ  یوں  کہیں کہ وہیں پلا بڑا۔  میں اکثر بچپن میں پڑھائے گئے اسباق کو یاد کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ مسلسل  اذیتوں کے دوران بھی نبی ﷺ کی  سنت اور اخلاقی تعلیمات پر غور کرتا تھا۔

  برسوں  اکٹھے رہنے، مسلسل ایک قید خانے سے  گوانتانامو  میں ہی دوسرے قیدخانے میں منتقلی،  مسلسل   عام سیلوں سے  قید خانے کے قید تنہائی والے سیلوں میں منتقلی  سے  ہم قیدیوں نے آپس میں  قربت حاصل کر لی تھی۔  ہماری مشترکہ زندگی، ثقافت،  اور یادیں ہیں۔  ہم  نے اچھے اور برے حالات کو  اکٹھے  جھیلا اور آپس میں  ایک خاندان کی طرح بن گئے تھے۔

                    2010 میں جب ہمیں کیمپ  نمبر چھے میں اکٹھا رہنے کے لیے بھیجا گیا تو ہمارا آپسی رشتہ اور بھی گہرا ہو گیا۔  یہاں  پوچھ گچھ کرنے والے  اور محافظ کم تھے،  کیمپ کے اصول  نسبتاً نرم تھے  اور ہم آپس میں اور  کیمپ سٹاف سے زیادہ سے زیادہ  مل جل سکتے تھے۔  اب الگ الگ قیدخانوں کی بجائے ہم اکٹھے  صفیں بنا کر نمازیں  پڑھ سکتے تھے جیسے مساجد میں پڑھتے ہیں۔  اب الگ الگ کھانے کی بجائے ہم اکٹھےکھانا  کھا سکتے تھے جیسے ایک فیملی میں کھاتے پیتے ہیں۔  الگ الگ فٹ بال کھیلنے کی بجائے ہم ٹیمیں بنا کر کھیلنے کے قابل ہو گئے  تھے اوراب ہم صرف اپنے ساتھ والے ایک قیدی کے بجائے دیگر دسیوں بلاکس کے قیدیوں سے بھی مل جل سکتے تھے۔

   ہمارے پاس بہت کچھ نہیں تھا لیکن ایک دوسرے کا ساتھ ضرور تھا۔    جب قیدی ایک دوسرے کو   بلاتے تو یمنی  بھائی، افغانی بھائی وغیرہ  کہتے۔  ہم نے ایک دوسرے سے بہت  سی باتیں اور ثقافتی چیزیں سیکھی اور سکھائیں۔  ہم نے ایک دوسرے کی ثقافت سے بہترین چیزیں مستعار لیں۔  ہم (عرب) افغانیوں کی طرح برتاؤ کرنے لگے اور  افغانی عربوں کی طرح۔

   متوقع طور پر پوچھ گچھ کرنے والوں نے ہمیں  بہت ایک دوسرے کے خلاف کرنے کی کوشش کی۔  کئی قید خانے ایسے ہوتے تھے جہاں یا تو افغان زیادہ ہوتے یا عرب۔ جب پوچھ گچھ کرنے والے چاہتے کہ مجھے تنہائی کا شکار کریں تو وہ مجھے افغانیوں کے بلاک میں بھیج دیتے ، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہاں میری زندگی مشکل ہو جائے گی۔  کیونکہ وہاں کوئی عرب نہیں۔  وہ شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ ہم مسلمان تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور کسی دوسرے کیمپ میں جانے والا وہاں بطور مہمان رکھا جائے گا، جب تک بھی وہ وہاں رہے۔ وہاں کے لوگ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اسے آرام پہنچا سکیں۔  اور میرے ساتھ بالکل  ایسا ہی ہوا۔  افغانیوں نے  میرے ساتھ بالکل اپنے  گھر کے رکن کی طرح برتاؤ کیا۔  میں ایک ان پڑھ افغان کو عربی سکھا پایا اور ایک دوسرے افغان سے خوبصورت شاعری سنی۔  یہ ایک ساٹھ سالہ شاعر تھا جس نے گوانتانامو  میں رہتے ہوئے  پشتو میں دو  شاعری کی کتابیں لکھیں۔  وہ ہمیشہ اپنے بلاک والوں کے لیے شاعری کرتا اور اس نے میرے لیے بھی شاعری کی۔

  عرب    لوگ قیدیوں میں اکثریت میں تھے۔ اس لیے ان میں سے کئی تشدد اور اذیتوں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کرتے۔  شروع شروع میں افغانوں اور دیگر قومیتوں کے قیدیوں نے کوشش کی کہ وہ اس مزاحمت اور احتجاج میں شریک نہ ہوں۔ قید خانے کی انتظامیہ نے اسے ان میں خوف کی علامت سمجھا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی۔  ایک دن، ایک  پشتو مترجم، افغانیوں کے لیے کاغذ کا ایک ٹکڑا لایاجس پر کچھ عربوں کی تصویریں بنیں تھیں اور منافق لکھا تھا۔  پہلے ہی افغان نے جب اسے پایا تو اسے  تھوکتے ہوئے مترجم  کے منہ پر دے مارا۔  وہ اس غلط فہمی میں تھے کہ وہ ہمیں بدل دیں گے۔  ہم جتنا ہی اکٹھا رہتے، ہمارے درمیان اتنا ہی رشتہ مضبوط ہوتا۔  تشدد، بدسلوکی اور  سختیاں جو ہم نے جھیلیں، انہوں نے  ہمیں آپس میں جوڑا اور  ہم نے مثالی یکجہتی حاصل کر لی تھی۔

   جب پوچھ گچھ کرنے والا ہمارے کسی بھائی پر تشدد کرتا تو ہم میں سے بیشتر اس سے بات کرنا بند کر دیتے۔ یہ بات ہمیں کسی نے کہی نہیں تھی اور نہ ہی اس کا ہم نے آپس میں فیصلہ کیا تھا۔ ہم اپنےتئیں ہی فریضہ سمجھتے تھے کہ اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف کھڑے ہوں۔ ہم اپنی کبھی کبھار کی خوشیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے۔ ہم سب جشن مناتے جب بھی ہم میں سے کسی کو خوشخبری ملتی، خاص طور پر تب جب ہم میں سے کسی کی اولاد کی شادی ہوتی یا پھر وہ   نانا یا دادا بنتا۔  ہم اپنے مذہبی تہوار کو اکٹھے مناتے۔  ہم اکٹھے رمضان کے روزے رکھتے اور عید الاضحی مناتے۔

  جب بھی ہم میں سے کوئی قیدی گوانتانامو  سے رہائی پاتا تو بہت بڑا جشن ہوتا۔   کیمپ کے محافظ اور دیگر سٹاف ممبر  ہمارے رویے پر بہت حیران ہوتے۔  وہ بتاتے کہ وہ بد سے بدترین لوگوں سے ملے ہیں۔ ایسے لوگوں سے جو قاتل تھے،  دہشت گرد اور ایسے کہ لمحوں میں دوسرے کو ختم کر ڈالیں۔  جب محافظ ہمارے ساتھ کام کرنا شروع کرتے تو ان کے نظریات بالکل ہی بدل جاتے۔  کئی محافظوں اور قیدیوں کی آپس میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔  یہاں تک کہ کچھ تو مسلمان بھی ہو گئے تھے۔

   جو رشتے ہم نے استوار کیے اور جو بہترین اخلاقی کردار  اپنے ہر قیدی  ساتھی کے اندر میں نے  دیکھا،   اس نے مجھے حضورﷺ کی تعلیمات کی طاقت  دکھائی۔  اسلام ہمارے آپسی تعلقات کو مضبوط کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت،  گھر والوں، ہمسائیوں، اپنے آپ اور  ہر ایک جو ہمارے ارد گرد موجود ہے حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط کرتا ہے۔ یہ تعلقات مشکل اوقات میں بھی ہمیں مضبوط کرتے ہیں۔ گوانتانامو  میں روز ہم حضور نبی پاک ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے۔

متعلقہ عنوانات