گرین ہاؤس

یو۔ این۔ او کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے اس نجی سن ڈاؤنر سےمولو اب گھر لوٹنا چاہ رہا تھا مگر اس نے اتنی پی لی تھی کہ اسے ڈر تھا، اٹھا تو لڑکھڑانے لگوں گا۔


آسٹریلین لاکر اس کی خواہش اور خوف بھانپ کر ہنسنے لگا، ’’پر جب نشے کا یہ عالم ہو تو گھٹنوں کو سیدھا ہی کیوں کیا جائے؟‘‘


لاکر سے مولو نے پوچھنا چاہا کہ یہ کیا نام ہوا، لاکر۔۔۔؟ اور خود ہی جواب بھی دینا چاہا۔۔۔ اچھا، اپنےجرائم پیشہ باپ دادا کی یاد میں اب تمہارا منہ بند ہے۔۔۔ مگر اپنے سامنے ہی بیٹھے امریکی فارن آفس کے ایک سینئر آفیشل کو پاکر وہ اسی پر ٹوٹ پڑا،‘‘ مسٹر لاکر، کیا تم ہماری امریکی سرکار کی کسی حالیہ بدحواسی پر تبصرہ کر رہے ہو؟‘‘


’’کیا مطلب؟‘‘ امریکی آفیشل کے کان اتنے کھڑے ہوگئے کہ وہ اپنے کان ہی کان آنے لگا۔


’’مطلب یہ، کہ جب سے روسیوں نے تائب ہوکر کان پکڑ لیے ہیں، وائیٹ ہاؤس نشے میں اپنی دوٹانگوں پر کھڑا ہی نہیں ہو پا رہا۔۔۔ تم یہی کہنا چاہ رہے تھے نا مسٹر لاکر؟‘‘ مولو نے اپنی بات سے محظوظ ہوکر سٹیورڈ سے ایک اور وہسکی طلب کی۔ ’’ان حالات میں کیا یہ بہترنہیں، مائی ڈیر بلیک برڈ۔‘‘ اس نے امریکی آفیشل سے پوچھا، ’’امریکی سرکار ذرا دم لینے کے لیے چپ چاپ بیٹھی رہے؟‘‘


لاکر نے شاید وہسکی کا گھونٹ بھرنے کے لیے منہ کھولا تھا مگر وہ بول اٹھا، ’’امریکی کا تو خاصہ ہے کہ دم لینا ہو تو اور تیز چلنے لگتا ہے۔‘‘


’’میں بھی تو امریکی ہوں،‘‘ مولو نے اسے جواب دیا۔ ’’میں تو دم لینے کے لیے دم ہی لیتا ہوں۔‘‘


’’اسی لیے وہ امریکی سیاست دان۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔؟ وہ تمہاری امریکیت کو مشکوک قرار دیتا ہے۔‘‘ لاکر کو نشے میں زبان کو ڈھیلا چھوڑ دینا بڑا خوشگوار لگ رہاتھا۔ ’’وہ تمہاری ساری صحافتی سلطنت خریدنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔‘‘


’’سنو، مسٹر لاکر،‘‘ مولوپل بھر بے چین سا ہوکر وہی مول چند دھرم چند نظر آنے لگا جو کوئی ڈیڑھ ایک دہا پہلے کینیا کی آزادی پر وہاں اپنا سارا بزنس بیچ کر یو۔ایس۔اے میں آبسا تھا۔ ’’تمہارا وہ گھاگ سیاست دان ہی سر تاپا بک جائے گا۔‘‘ اسے گویا اپنا یہ بیان بھی ناکافی لگا۔


’’میرا مطلب ہے، بشرطیکہ میں نےاسے خریدنا چاہا۔۔۔‘‘


مولو نے ایک ہی ڈیک میں اپنی ساری وہسکی حلق سے اتارلی تو آپ ہی آپ پرسکون ہوکر مسکرانے لگا۔


بلیک برڈ کے کان بھی ڈھیلے ہوکر نیچے لٹک آئے اور وہ ہنس کر کہنے لگا، ’’اگر تم میری تنخواہ کی دگنی رقم دینے پر تیار ہو مولو، تو مجھے ہی کیوں نہیں خرید لیتے؟‘‘


’’دگنی تنخواہ پر کیوں؟‘‘


’’ہیٹی کہتی ہے،‘‘ بلیک برڈ بدستور ہنستے ہوئے اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا، جو پینے سے سیر ہوکر کھا کھا کر منہ ہلائے جارہی تھی۔ ’’اگر تم دگنی تنخواہ نہ لائے تو تمہیں طلاق دے دوں گی۔‘‘


’’طلاق کے جھنجٹ میں کیوں پڑتی ہو، ہیٹی ڈارلنگ؟‘‘ مولو نے بلیک برڈ کی بیوی کو مشورہ دیا، ’’دگنی تنخواہ کے لیے دو خاوند کرلو۔‘‘


ہیٹی اور بلیک برڈ نے سب سے اونچا قہقہہ لگایا۔


’’اپنی بیوی کو ساتھ کیوں نہیں لائے، ناٹی بوائے؟‘‘ ہیٹی مولو سے پوچھنے لگی۔


’’کیسے لاتا؟‘‘ عین وقت پر اس کے ایک دانت میں درد جاگ پڑا۔ گھریلو نسخوں سے بات بننے میں نہ آئی تو میں نے ڈاکٹر کو فون کیا۔‘‘ مولو نے سٹیورڈ کو ایک اور وہسکی کا اشارہ کیا۔ ’’میں اسے ڈاکٹر کے گھر چھوڑ کر یہاں چلا آیا ہوں۔‘‘


’’خوبصورت عورتوں کو رات کے وقت جوان ڈاکٹروں کے گھر نہیں چھوڑنا چاہیے،‘‘ ہیٹی اپنے پرس سے شیشہ نکال کر ہونٹوں پر لپ سٹک کی تہہ جمانے لگی۔


’’خوبصورت عورتوں کی ترجیح اگر یہی ہو،‘‘ مولو ایک عرصے سے محسوس کر رہا تھا کہ وہ اس کی بیوی اور ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کو دہرا دہرا کر ازحد بور ہوچکے ہیں۔ ’’تو ہمارےامریکی قانون کے تحت شوہروں کو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ انہیں انہی کی ترجیحوں پر چھوڑ دیں اور اپنی ترجیحیں دریافت کریں۔‘‘


جواباً ہیٹی نے اپنے بال جھٹک کر کچھ اس طرح آنکھیں مٹکائیں گویا کہہ رہی ہو، میں تو تمہارے سامنے بیٹھی ہوں مگر مجھے دریافت کرنے کے لیے تم نامعلوم کہاں بھٹک رہے ہو۔ ’’تمہیں گھر جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ کیا پتہ، ڈینٹسٹ اسے ساری رات علاج کے لیے وہیں روکے رکھے؟‘‘


’’مگر تم یہ کیوں سمجھتی ہو لٹل گرل، کہ گھر لوٹ کر ہم واقعی گھر جاپہنچتے ہیں؟‘‘


’’تو پھر کہاں جاپہنچتے ہیں؟‘‘ ہیٹی کا خیال تھا کہ انجان پن کے میک اپ سے عورت کی جنسی کشش میں ڈھیروں اضافہ ہوجاتا ہے۔


’’کیا پتہ، کہاں؟‘‘ اگر ہیٹی کا شوہر وہاں موجود نہ ہوتا تو مولو بیٹی کے قریب سرک کر اپنا سر اس کے سینے پر ٹکا یتا۔ ’’برڈی!‘‘ اس نے ہیٹی کے شوہر کو مخاطب کیا، ’’اگرمیں واقعی تمہیں خریدنا چاہوں تو کتنے پیسے لوگے؟‘‘ اور پھر اپنے سوال کے جواب کا اتنظار کیے بغیر اس نے ہیٹی کی طرف منہ پھیر لیا۔ ’’ہاں، ہیٹی ڈیئر، کیا پتہ، کہاں؟‘‘


لیکن مولو کے ذہن میں اپنے گھر کا تصور صرف اسی ایک گھر سے بندھا ہوا تھا جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔۔۔ ہمالیہ کے کوہستانی سلسلے سے کچھ ہی فاصلے پر اس چھوٹے سے میدانی شہر سیالکوٹ میں ایک چھوٹا سا نہایت پرانا مکان، جو اتنا بڑا تھا کہ اتنے سالوں کی دوری سے بھی مولو کو ویسے ہی صاف دکھائی دیتا تھا، اور اتنا پکا، کہ ابھی تک اس کے دل و دماغ میں جوں کا توں کھڑا تھا۔ سیالکوٹ میں وہ کبھی گھر پہنچنے سے لیٹ ہوجاتا تو یہاں ٹرنکوں والے بازار سے اس جینیوں کی گلی میں سے ڈگ بھرتے ہوئے وہ وہاں اس پل پر آپہنچتا اور پھر وہاں سے دوڑتے ہوئے ایک سانس میں مندر کے پڑوس میں اپنے گھر کے دروازے کے سامنے۔


’’بھابوجی!‘‘


وہ گلا پھاڑ کر ماں کو آواز دیتا اور اس کی باؤلی ماں گویا اپنے بھیتر اسی کو ڈھونڈ رہی ہوتی اور اس کی آواز سنتے ہی بے اختیار اندر سے وارد ہوکر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیتی، ’’تو کدھر نکل گیا سیں، مولو؟‘‘ بچپن میں بھی مول چند کو سب مولوہی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ’’کہہ کے جایا کر، پترا۔‘‘


’’یا پھر، ہیٹی،‘‘ مولو نے اچانک ہیٹی کی طرف منہ اٹھاکر کہا، ’’گھر وہ ہوتا ہے جہاں ہمارا انتظار کیا جاتا ہے۔‘‘


بلیک برڈ نے زور سے قہقہہ لگایا، ’’کس سے مخاطب ہو مولو؟ میری بیوی کو تو اس کی ایک دوست لے گئی ہے۔۔۔ کہاں۔۔۔؟ یہیں کہیں کسی دلچسپ آدمی سے ملانے۔‘‘


’’دلچسپ آدمی،‘‘ مولو نے منہ میں بڑبڑا کر وہاں سے ایک بار پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن لڑکھڑا سا گیا اور پھر بیٹھ گیا۔


’’تمہارا گھر بہت دور ہے مولو۔کیا تمہیں یقین ہے، بہ حفاظت پہنچ جاؤ گے؟‘‘ آسٹریلین لاکر نے مولو سے بھی زیادہ چڑھا رکھی تھی لیکن وہ کسی عادی مجرم کی طرح بڑا پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔


’’فکر مت کرو، لاکر،‘‘ بلیک برڈ بولا، ’’ہماری امریکی گاڑیاں نہایت قابلِ اعتماد ہیں۔‘‘


’’کیا وہ تمہاری شراب نہیں پیتیں؟‘‘ روسی، سفیر ایک جرمن امریکی فائر آرمز ڈیلر کے بازو میں بازو ڈالے کسی عرب ریپبلک کے نمائندے کے ساتھ یک بیک ان کے سروں پر آکھڑا ہوا۔


نہیں، وہ ہماری مقدس مادرِ وطن کا تیل پیتی ہیں۔ عرب جمہوریہ کا نمائندہ سب کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ وہیں بیٹھ گیا۔


’’میں سمجھا تھا ایکسیلنسی، تم دعوی کروگے تمہاری مقدس مادرِ وطن کا دودھ پیتی ہیں۔‘‘ مولو کے ہاتھ پیر جواب دینے لگے تو اس کا ذہن تن جاتا۔ وہ سوچنے لگا، کیا ہی اچھا ہو جو آدمی کا اٹھنا بیٹھنا۔۔۔ اس کی تمام تر ٹریفکنگ صرف اس کے ذہن میں ہو، اس کے سارے کام یہیں انجام پاتے رہیں۔


اسے کھکھلاکر ہنستے ہوئے پاکر سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے۔


’’میں دراصل پراچین بھارت کے ان رشیوں کے بارے میں سوچنے لگتا تھا جو ایک بار کسی درخت کے نیچے کی مٹی پر سمادھی لگالیتے ہیں تو مٹی میں اتنے مٹی ہوجاتے تھے کہ ان کے وجود پر درخت اگ آتے مگر وہ اندر ہی اندر متواتر دھڑکتے رہتے تھے اور ان کے وجود میں ساری کائنات سمٹ آتی تھی اور۔۔۔‘‘


’’خدا کے لیے، مولو!‘‘ جرمن امریکی کارخانے دار نے مولو کو ٹوکا۔ ’’ہم تمہارا یہ آرٹیکل کل تمہارے گڈاولڈ، آل ورلڈ، میں پڑھ لیں گے۔ اس وقت صرف باتیں کرو، صرف منہ ہلاؤ۔‘‘


’’اس میں کیا مشکل ہے؟‘‘ مولو نے جرمن امریکی کو کھانے کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ’’پیٹ بھرتے جاؤ، منہ ہلتا رہے گا۔‘‘


’’اس سے میرا کام بہت مشکل ہوجائے گا۔‘‘ اسی گروہ کے ایک کونے میں عالمی ادارے کے فوڈ فار آل پروگرام کا باس بھی چپکے سے آبیٹھا تھا۔


’’ہاں، مائی ڈیر مولو،اگر ہم نے اتنا کھانا شروع کردیا۔‘‘ جرمن امریکی نے اشیائے خوردنی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ’’تو تمہارے ہندوستان بھیجنے کے لیے کیا بچے گا؟‘‘


’’فائر آرمز مائی ڈیئر ڈیلر ان ڈیتھ!‘‘


سبھوں کے قہقہے کسی بم کے مانند پھوٹ پڑے، جس سے آس پاس کے لوگ انہیں تجسس سے دیکھنےلگے۔


’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔‘‘ فوڈ فار آل پروگرام کا باس کہنے لگا، ’’جب ہندوستان اور پاکستان کے پاس پیٹ بھر کھانا بھی نہیں تو وہ کسے بچانے کے لیے اپنا سارا پیسہ ڈیفینس پر خرچ کردیتے ہیں؟‘‘


’’اور کسے؟ اپنی بھوک اور۔۔۔‘‘


’’اور خدا کو۔۔۔ ہے نا؟‘‘


’’ہاں، ہندوستانی ہو یا پاکستانی، خدا کو بھی اپنے سامان میں باندھ کر سپاہ کی تلاش میں دنیا بھر میں مارا مارا گھوم رہا ہے۔‘‘


’’خدا کو بھی کیوں؟‘‘


’’خدا کے بغیر اس کے لرنے جھگڑنے کی خواہش کیونکر پوری ہوگی؟‘‘ سب ہنس دیے۔


’’ہنسنےکی بات نہیں۔ گھر میں آگ لگی ہو۔۔۔‘‘


’’کون لگاتا ہے آگ۔۔۔؟‘‘


’’گھر میں آگ لگی ہو۔‘‘ بولنے والے نے ذہن میں بکھرتے ہوئے جملے کو جلدی سے ازسرِنو یکجا کیا۔ ’’تو ہر شخص عافیت کے لیے باہر کی طرف دوڑتا ہے۔۔۔‘‘


’’عافیت۔۔۔ مائی فٹ!‘‘ جرمن امریکی انہیں بتانے لگا، ’’میرے بھائی نے جرمنی سے لکھا ہے کہ وہاں بیسیوں مشکوک اڈوں پر ایک ایک کمرے میں ایک ایک درجن ایشیائی بیمار مویشیوں کی طرح فرش پر اوپر تلے پڑے رہتے ہیں اور پولیس ویزا چیک کرنے کے لیے چھاپہ مارتی ہے تو وہ دہائی دینے لگتے ہیں، ہماری کھال کھینچ لو، جان لے لو، پر ہمیں واپس گھر مت بھیجو۔۔۔‘‘


’’تعجب ہے۔۔۔ ان کی بیوی بچے۔۔۔‘‘


’’بیوی بچوں کو بھی یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ گھر نہ لوٹ آئیں۔‘‘


’’تعجب ہے۔۔۔‘‘


’’اس میں تعجب کی کیا با ت ہے؟ اگر وہ گھر لوٹ جائیں تو انہیں پردیس سے پیسہ کون بھیجے گا۔۔۔؟ کیوں، مولو۔۔۔؟‘‘


’’اوہ شٹ اپ،‘‘ مولو اسے بڑی موٹی گالی بکنا چاہتا تھا مگر اسے وہ دن یاد آگئے جب وہ اپنے بوڑھے ماں باپ اور جوان بہن کو پیچھے چھوڑ کر پہلے پہل کینیا آنکلا تھا۔ ان دنوں ان کے یہاں اس کے دور کا ایک رشتے دار آیا ہوا تھا جس نے کینیا میں اپنی گرو سری سے لاکھوں کی دولت پیدا کر رکھی تھی۔ گروسر نے اس کی بی۔ اے کی تھرڈ کلاس کی ڈگری پر ریجھ کر اسے کینیا چلنے پر آمادہ کرلیا تھا، تاکہ وہاں پہنچ کر وہ اس کی لڑکی سے شادی کرلے۔


کینیا میں مولو کی دلہن ایک دن اسے اپنے باپ کی گروسری وین میں نیشنل پارک لے گئی جہاں میلوں کے احاطے میں جنگلی جانور کھلے بندوں گھومتے پھرتے تھے۔ اس روز کا ایک منظر مولو گویا اس وقت اس سن ڈاؤنر میں بعینہ دیکھ رہا ہو۔ ایک جنگلی بیل سرجھکائے گھاس پر منہ مار رہا ہے کہ اس کی پشت سے اچانک ایک شیر اس پر چڑھ آیا ہے اور اسے چیرنے پھاڑنے لگا ہے مگر بیل بدستور اپنی چار ٹانگوں پر کھڑا ہے اور منہ میں آئی گھاس کو تیز تیز چبانےلگا ہے کہ مرنے سے پہلے اسے حلق سے اتارلے۔۔۔


وہ ساری رات مولو نے چپکے چپکے رو کر گزاری تھی اور اپنے ماں باپ اور بہن تینوں کو مخاطب کرکے ایک بڑی لمبی چٹھی لکھی تھی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ ہر مہینے تنخواہ کے دن گھر پہنچنےسے پہلے انہیں اپنی نصف تنخواہ کا منی آرڈر پوسٹ کردیا کرے گا۔ اس کے پہلے منی آرڈر کی وصولی پر بابا نے اسے فوری طور پر مطلع کیا تھا کہ یہاں پوری خیریت ہے۔ تمہارا منی آرڈر مل گیا ہے اور ہم نے سوچا ہے کہ اگلے تین ماہ کے منی آرڈروں سے پہلا کام یہ کریں گے کہ سارے گھر کا فرش پکا کروالیں۔۔۔ تمہاری ماں او ربہن کچے فرش کے لیپ پوت سے عاجز آچکی ہیں اور۔۔۔


’’شٹ اپ۔۔۔!‘‘ مولو نے سراٹھاکر فائر آرمز ڈیلر سے کہا مگر جب اس جرمن امریکی نے اسے ہنستے ہوئے بتایا، میں تو تم سے پوچھ رہا ہوں بھائی، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے، تو اس نے آواز لٹکاکر جواب دیا، آئی ایم ساری مائی ڈیئر مسٹر۔


’’تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو؟‘‘


’’نہیں، میں نے بہت پی لی ہے،‘‘ مولو نے کہا، ’’ان حالات میں میرا نشہ اس وقت کم ہوتا ہے جب اور پیوں۔۔۔‘‘


’’اور۔۔۔!‘‘ جرمن امریکی نے جھوم کر کہا، ’’شراب کا نشہ ہو، یا پاور کا، یا کوئی بھی، اس کا تدارک اسی طور ممکن ہے۔ اور۔۔۔‘‘ پھر وہ سبھوں کو مخاطب کرکے کہنے لگا، ’’ہیرز دامیج فرام آور گریٹ امریکا۔۔۔ اور۔۔۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے، بس اور۔۔۔ گلاس اٹھاؤ دوستو اوراپنے اس امریکی دوست کی خوشی کی خاطر ایک ہی ڈیک میں سارا بچا کھچا اور پی جاؤ۔۔۔‘‘


سبھو نے اپنے گلاس خالی کردیے تو دو سٹورڈ بڑی خاموش مستعدی سے آگے بڑھ کر ان کے لیے اور شراب انڈیلنے لگے۔


مولو نے اپنے بھرے ہوئے گلاس پر نگاہ ڈالی اور اسے چھوئے بغیر کھڑا ہوگیا۔


’’تھینک یو، ایوری باڈی! باقی کی میں اب گھر جاکے پیوں گا۔‘‘


’’یہیں کیوں نہیں؟‘‘ بلیک برڈ نے اس سے پوچھا۔


’’کیوں کہ اپنے مکان کی چار دیواری میں مجھے اپنا آپ بھروسے کے قابل معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہی ایک جگہ ہے جہاں میں دھت چین سے سوجاتا ہوں۔‘‘


ہیٹی اس وقت انہی کی طرف لوٹ رہی تھی۔ مولو کا جملہ کان میں پڑنے پر وہ کہنے لگی، ’’مگر گھر میں سوؤگے کس کے ساتھ، مولو؟ تمہاری بیوی تو اپنے ڈینٹسٹ کے پاس گئی ہوئی ہے۔‘‘


’’دی اولڈ بچ!‘‘ مولو نے دل ہی دل میں کہا اور اس کی طرف ہاتھ ہلاکر آگے بڑھ گیا۔


بینکویٹ ہال میں ابھی وہ چند ہی قدم چلا تھا کہ ایک ونگ سے اسے سنائی دیا۔


’’جامبو، بوانا مولو۔‘‘ اس نے دیکھا کہ کینیا کا ہائی کمشنر چند لوگوں میں سےاٹھ کر اسے سلام کہہ رہا ہے۔


’’جامبو، ایکسیلینسی،‘‘ اسے معلوم تھا کہ افریقی اور ایشیائی ریپبلکوں کے سفیر شاہی اہتمام سے پکارے جانے پر جامے میں پھولا نہیں سماتے۔


’’آؤ، ہمارے ساتھ نہیں بیٹھوگے، بوانا؟‘‘


مولو نے سوچا کہ ترقی پذیر ممالک کے نوکرشاہوں کی دعوت برسرِراہ بھی قبول نہ کی جائے تو وہ اسے اپنی توہین پر محمول کرلیتے ہیں۔ ’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں، ایکسیلینسی؟‘‘ وہ لڑکھڑائے بغیر اپنا آپ لڑکھڑاتے محسوس کرکے اس گروپ میں آبیٹھا اور ایک نیگرو سٹیورڈ اسکے سامنے گلاس رکھ کر شراب انڈیلنے لگا۔ نیگرو کے جھکے ہوئے سر کے بالوں کے چھلے دیکھ کر مولو کو لگا کہ وہ اپنے کینیا کے گھر میں بیٹا ہوا ہے اور اس کا، کالا نوکر اس کا گلاس بھر رہاہے۔


کینیا کی بیس بائیس سالہ زندگی بھی گروسر کے داماد نے راجہ بن کر بتائی تھی۔ ہندوستان سے وہاں آئے ابھی اسے دو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ چند کالوں نے اس کے اکلوتے سالے کو قتل کردیا۔ اس کا سالہ نصف شب کو کیبرا دیکھ کر نشے کی حالت میں گھر لوٹ رہاتھا کہ لٹیروں نے اس کی گاڑی رکواکر اسے ڈرائیور کی سیٹ پر ختم کردیا اور اس کا بٹوا، گھڑی، انگوٹھی۔۔۔ جو کچھ بھی ان کے ہاتھ آیا۔۔۔ لے کر چمپت ہوگئے۔ اس کا رنڈوا سسر بھی اپنے بیٹے کے غم میں چند ہی ماہ میں اس کے پیچھے ہولیا۔ پھر جب بڈھے کے وکیل نے اسے کل جائیداد کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو اس نے اپنی زندگی کونئے سرے سے پلان کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے اپنی اچھی خاصی سرکاری نوکری چھوڑ دی۔ بڈھا اتنا کچھ چھوڑ گیا تھا کہ وہ کام وام کے بغیر بھی ٹھاٹ سے رہ سکتا تھا، تاہم بچے کے سامنے کھلونوں کا ڈھیر لگا ہو تو وہ کب تک کھیلنے سے ہاتھ روکے رکھے گا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے گروسری سنبھال لی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بعض پرانے انگریز افسروں کی باقاعدہ کمیشن طے کرکے کئی سرکاری اداروں کو ٹھیکے پر متفرق ضروریات سپلائی کرنے لگا۔ جوں جوں اس کا کام بڑھتا چلا گیا وہ سارے ایسٹ افریقہ میں نئے طرز پر گروسری کی ایک لمبی طلائی زنجیر بنانے میں جٹ گیا اور اتنی دولت پیدا کرلی کہ کوئی ایک دہائی میں اس کا شمار ملک کے نصف درجن مالدار ترین اشخاص میں ہونے لگا۔


اس کے ماں باپ۔۔۔؟ اب اسے اتنی فرصت کہاں رہی تھی کہ ان کی یاد میں گھلتا رہے۔ پہلے پہل تو اس نے کئی بار انہیں لکھا کہ وہ بھی اسی کے پاس آجائیں، لیکن بوڑھا بوڑھیا اڑگئے کہ وہ اس عمر میں سمندروں پار اپنا مردہ کہاں خراب کریں گے، وہ یہیں اپنے سیالکوٹ کے گھر میں اس کی طرف منہ اور من کرکے ٹھنڈی ہوائیں محسوس کرلیا کریں گے۔ چنانچہ وہ دونوں اس کی ٹھنڈی ہوائیں محسوس کرکرکے سلگتے رہے اور وہ ان کے ماہانہ الاؤنس میں ان کی شفقت و دعا کے صلے کی رقم بھی جوڑ کر انہیں اس وقت تک پیسے بھیجتا رہا جب تک اسے پتہ نہ چلا کہ اس کے پیسے چند ماہ سے ان کی بجائے نہ جانے کون وصول کرتا رہا ہے۔ انہیں مرے کھپے تو آدھے سال سے بھی اوپر ہولیا تھا۔


ان کی موت کی اطلاع پاکر اس شام وہ اپنے بنگلے کے ٹیرس پر تنہا آبیٹھا تھا اور جانی واکر کے پیگ پے درپے چڑھاتے ہوئے اپنے دل میں ماں باپ کی جلتی ہوئی ارتھیوں پر نگاہ جمائے ہوئے تھا اور اس کا رونا نہیں نکل رہا تھا شاید اس لیے کہ وہاں کوئی نہ تھا جو اس کی ڈھارس بندھاتا۔۔۔ اس کی بیوی۔۔۔؟ نہیں، وہ اس کی ڈھارس کیسی بندھاتی۔ بانجھ لجاوتی کی کوکھ میں کینسر کا ٹیومر اگ آیا تھا اور اس کے پیٹ میں چار سو پھیل رہا تھا۔ اسے تو خود آپ ڈھارس کی ضرورت تھی جسے پورا کرنے کے لیے مولو نے چوبیس گھنٹوں میں آٹھ آٹھ گھنٹوں کے لئے تین تربیت یافتہ نرسیں لگا رکھی تھیں۔ اس کے بچے؟ نہیں، اس کے کوئی اولاد نہ تھی جس کی توتلی آنکھوں میں کھوکر اسے اپنی ٹوہ کھوہ ہونے لگتی۔


جلتی ہوئی ارتھیوں پر بدستور ٹکٹکی باندھے اس نے ایک اور پیگ ہونٹوں سےلگالیا اور جب شراب اپنا رستہ چیر کر اس کے معدے میں اتر رہی تھی تو چاند آسمان سے اس کے سر میں سمائے جارہا تھا۔۔۔ مولو۔۔۔ جب کینیا آنےکے لیے سیالکوٹ سے اس کی گاڑی روانہ ہوئی تھی تو چاند اس کے ساتھ ساتھ دوڑے چلا آرہاتھا۔۔۔ مولو۔۔۔ نہ جاؤ مولو۔۔۔ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہو۔۔۔؟ مولو۔۔۔ مو۔۔۔ اوشٹ اپ۔۔۔ شٹ اپ۔۔۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ٹیرس کی لفٹ کے قریب افریقی بیرے مؤدب کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ بوانا کو باکب بے ہوش ہو اور کب وہ اسے اسٹریچر پر ڈال کر اس کے بیڈ روم میں پہنچادیں۔۔۔


’’بوانا۔۔۔؟‘‘


’’او شٹ اپ۔۔۔‘‘ مولو نے نشے میں ہڑبڑاکر کہا، اور یہ دیکھ کر کہ اس سے تو کینیا کاہائی کمشنر ہمکلام ہے اسے تاسف ہوا۔۔۔ ’’آئی ایم ساری، ایکسیلنسی۔ میں دراصل اپنےآپ کو ڈانٹ رہا تھا۔‘‘ مولو نے سٹیورڈ کو اشارہ کیا کہ اس کے لیے وہسکی لائے۔


’’کامن ویلتھ کے ملکوں کو یہ ایک برٹش دین ہے،‘‘ برٹش وائس کونسل واٹس بھی وہاں موجود تھا۔ ’’کہ اپنے آپ کو ڈانٹ کر وہ اپنی اصلاح کرتے رہیں۔‘‘


’’چہ خوب!‘‘ مولو نے سارے گروپ پر نظر دوڑاکر کہا، ’’یہاں تو ہیڈ ماسٹر کی نگرانی میں پوری کامن ویلتھ کلاس روم میں موجود ہے۔ انڈیا، پاکستان، یوگنڈا، کینیا،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ۔۔۔‘‘ اس نےاوب کر خود کو باقیوں کی طرف دیکھنے سے روک لیا۔ ’’کیا وکٹوریہ راج کی برکتوں پر کوئی سبق جاری ہے مسٹر واٹس؟‘‘


’’مسٹر مولو سپیکنگ کوائٹ لائیک ہم سیلف،‘‘ واٹس نے کہا۔ ’’ہم سب تمہیں مس کر رہے تھے۔‘‘


واٹس، کے لہجے میں سفید جھنڈا پاکر مولو نے اپنا انداز بھلاکر لینا چاہا۔ ’’مسٹر واٹس، آئی وش آئی ہیڈ ناٹ ری ناؤنسڈ مائی برٹش سٹی زن شپ۔۔۔‘‘


’’تم اگر درخواست دینا چاہو،‘‘ برٹس وائیس کونسل نے اسے جواب دیا۔ ’’تو ہم پھر سےتمہاری برٹس سٹی زن شپ پر غور کرسکتے ہیں۔‘‘


’’تم برٹش لوگ اتنا غور مت کیا کرو مسٹر واٹس،‘‘ وہسکی کا گلاس ہاتھ میں لے کر مولو خود کو روک نہ پایا۔


’’کیا مطلب؟‘‘


مولو وہسکی کا گھونٹ بھرنے کے لیے ذرا رک گیا، ’’اب یہی دیکھو مسٹر واٹس، تمہارے گریٹ برٹین نے کینیا کے برٹش پاسپورٹ ہولڈروں کی برٹش شہریت تو قبول کرلی مگر بڑے غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ لوگ اپنی برٹش شہریت کےبا وجود آپ کے ملک میں رہ نہیں سکتے۔۔۔‘‘


’’وطن کی محبت کا تقاصہ تو یہ تھا مسٹر مولو،‘‘ ہندوستان کا سفیر کمود پوچھنے لگا۔ ’’کہ تم بھارت ہی لوٹ جاتے۔ آخر تم یہاں امریکہ کیوں چلے آئے؟‘‘


’’وطن کی محبت کا تقاضہ پورا کرنے، مسٹر۔۔۔ مسٹر کموڈ۔‘‘ کموڈ سے بات کرتے ہوئے مولو کو ہمیشہ کموڈ کی، ڈی، پر زور ڈالنے کی ترغیب رہتی۔ ’’میرامطلب ہے اسی کروڑ کی آبادی میں ایک اور نفس کا اضافہ کیوں ہو؟‘‘


’’اسی کروڑ،‘‘ نیوزی لینڈر جن استعجاب میں اپنی آواز کو پھیلاتا ہی چلا گیا۔ ’’کیا انڈیا کی عورتیں بارہ مہینے حاملہ رہتی ہیں مسٹر کموڈ؟‘‘


’’ہاں، مسٹر جن،‘‘ کمود کے بجائے مولو نے اسے جواب دیا۔


’’ہندوستانی مغربیوں سے اسی مانند اپنے بدلے چکاتے ہیں۔ آپ لوگ کہیں بھی مریں، وہ آپ کو اپنے ملک میں پیدا کرلیتے ہیں۔۔۔‘‘


’’ری الی!‘‘ جن گھبراکر اپنی ساری جن ایک دم پی گیا۔ ’’بڑے بل! مجھے کسی ہندوستانی گھر میں پیدا ہونا پڑجائے تو میں پیدائش پر ہی رو رو کر جان دے دوں۔‘‘


’’مگر ہم ہندوستانی ساری زندگی روتے رہتے ہیں، پھر بھی ہماری جان نہیں نکلتی۔‘‘


’’مگر ہم امریکیوں کو ہندوستانیوں میں شمار نہیں کرتے مسٹر مولو،‘‘ کمود کو مولو پر غصہ آگیا۔


’’مسٹر کموڈ، کیا مجھے پاکستانی سمجھ کر مجھ سے ناراض ہوگئے؟‘‘


پاکستانی سفارت کار نے کمود کے گلے میں اپنا بازو ڈال دیا۔ ’’میری اور کمود کی دوستی پر شک کی گنجائش روا رکھ کے تم ہم دونوں سےظلم برت رہے ہو مولو۔‘‘


’’یہی تو سارے سکینڈل کی بنا ہے علی۔‘‘ مولو کی پاکستانی سفیر سے بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔


’’اشخاص ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور انہی اشخاص کی سرکاریں شاید ان کی محبت کے باعث ایک دوسرے سے نفرت۔‘‘


’’بس اگر کشمیر کامسئلہ حل ہوجائے،‘‘ پاکستانی سفیر نے کہا۔ ’’تو ہمارے درمیان اور کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔‘‘


’’مگر کشمیر ہندوستان کا انٹیگرل پارٹ ہے،‘‘ کمود بولا۔


’’نہیں، کشمیر پاکستان کی مذہبی اور تہذیبی کل میں واقع ہے،‘‘ علی نے فوراً جواب دیا۔


’’نہیں۔۔۔‘‘


’’نہیں۔۔۔‘‘


اسی دوران یو۔این۔او میں آسٹریلیا کا نمائندہ سب کو بتانے لگا، ’’چند سال پہلے اپنے سڈنی میں ایک کشمیری میرا شریکِ کار تھا اس نے ہماری آسٹریلین شہریت اختیار کر رکھی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا، کیوں مسٹر ظہیر الدین، یہاں آنے سے پہلے تم کہاں تھے، ہندوستان میں، یا پاکستان میں۔۔۔؟ پتہ نہیں، کہاں۔۔۔؟ اس نےجواب دیا۔۔۔ دنگوں سے جان بچانے کے لیے نامعلوم میں کہاں بھاگا پھرتا تھا مسٹر ڈاونر۔ مجھے تو یہاں آسٹریلیا پہنچ کر پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ میں اپنے ہی وجود میں ہوں۔۔۔‘‘


ہندوستان اور پاکستان کے سفارت کار ابھی تک اپنے چہروں کے یکساں خدوخال سے برآمد ہوتےہوئے ہونٹوں کو اتنی یکساں وسعت میں کھولے ہوئے تھے گویا محب و محبوب ہوں۔


’’نہیں۔۔۔‘‘


’’نہیں۔۔۔‘‘


گریٹ برٹین کے واٹس نے نہایت سفارتکارانہ صناعی سے بات کا رخ موسم کی خرابی کی طرف موڑ دیا۔ ’’یہاں کی سردی بڑی خشک ہے مگر ہمارے گریٹ برٹین کی سردی اپنے گیلے پن کے باعث ہمیں بہت عزیز ہے۔‘‘


مولو شاید بور ہونے لگا تھا، ’’کیا آپ لوگ اسی لیے نہانے سے بہت گھبراتے ہیں؟‘‘


جب سب لوگ ہنس رہے تھے تو کینیا کاہائی کمشنر مولو کے اور قریب سرک آیا، ’’پر میری سمجھ میں نہیں آتا بوانا، تم نے ہمارا کینیا کیوں چھوڑ دیا۔‘‘ جواب میں مولو صرف مسکرادیا۔


کینیا کی آزادی سے چند سال پہلے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ حالات کیسا پلٹا کھانے والے ہیں۔ چنانچہ اس نے اپنی گروسری کی طلائی زنجیر کاٹنا اور جائداد بیچنا اور دھیرے دھیرے اپنا ساراپیسہ امریکہ بھیجنا شروع کردیا تھا حتی کہ آزادی کےآس پاس وہاں اس کے اکاؤنٹ میں لاکھوں ڈالرجمع ہوگئے۔ جب اس نے امریکہ روانہ ہونے کا طے کرلیا تو آزاد کینیا کی لیجسس لیٹو کونسل کے ایک فریقی رکن نے اس سے پوچھا، جب ہندوستان کو آزادی ملی تو تم یہاں بھاگ آئے اور اب ہمیں ملی ہے تو تم امریکہ بھاگ رہے ہو۔ کیا تم وہاں نہیں رہ سکتے جہاں آقائیت کے اسباب نہ رہیں۔۔۔؟


’’شاید تم پوچھنا چاہ رہے ہو بوانا، میں وہاں کیوں نہیں رہتا جہاں آقائیت کے اسباب پیچیدہ ہونے لگتے ہیں،‘‘ مولو نے اسے ہنس کر جواب دیا اور سوچنے لگا، میں اسے کیا بتاؤں؟ اس لیے کہ پناہ گاہیں بدلے بغیر میری نجی آقائیت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، جسے میں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا ہے۔


’’بوانا موانگی،‘‘ تھوڑے توقف کے بعد اس نے آزاد کینیا کی پارلیمنٹ کے رکن کو دوبارہ مخاطب کرکے کہا۔ ’’جس اکثریت کی سرکار کو تم بذریعہ اور برائے اکثریت قرار دے کر خوش رہتے ہو، ذرا اس کا چیرپھاڑ تو کرکے دیکھو۔ جمہوری انتخابات میں ڈھول بجانے والوں کو نہ گنیں تو انتخاب کرنے والے بھی وہی ہوتے ہیں اور منتخب بھی وہی۔‘‘


’’مگر بوانا۔۔۔‘‘


’’نہیں، بوانا، تمہاری سواحلی میں ایک کہاوت ہے، لومڑ اپنی چار ٹانگوں پر اس لیے سیدھا نظر آتا ہے کہ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ اسی لومڑ کا دوسرا نام جمہوریت ہے۔‘‘


’’لومڑ دومڑ کو خارج کرکے سیدھی بات کرو۔‘‘


’’سیدھی بات یہ ہے جمہوریت میں بھی سارے لوگ چند ایک کی حکمرانی میں ہی بسر کرتے ہیں۔‘‘


’’مجھے یقین ہے بوانا، امریکی تمہاری یہ نان سینس پسند نہیں کریں گے۔‘‘


’’اور مجھے یقین ہے بوانا موانگی، اٹ شوڈ میک پرفیکٹ سنس ٹو دا امیریکنز۔۔۔خیر۔‘‘ گروسری کے دھندے نے مولو کو باتوں کا اتنا دھنی بنادیا تھا کہ وہ تسلسل توڑے بغیر بات سے بات پیدا کرلیتا۔ ’’جمہوریت کا یہ غیراخلاقی پہول بھی دیکھ لو۔ یہاں بھی پہلا درس یہی ہے کہ آدرش جمہوریہ اقلیت کو ٹالنے کا مجاز نہیں۔ ہہ ہا ہہ۔۔۔ جیسے بھی کہہ لو، کلیدی لفظ وہی ہے۔۔۔ واحد۔۔۔ فرد واحد۔۔۔ سو جمہور یت کی تعریف یوں ہونی چاہیے۔۔۔‘‘ مولو اپنے لفظوں کو ترتیب میں بٹھانے کے لیے ذرا رک گیا۔ ’’سرکار بہ رشتہ اقلیت، برائے اقلیت۔۔۔ اینڈ آف کورس۔۔۔ بذریعہ اقلیت۔۔۔ بولو، ہے نا بوانا؟‘‘


کینیا کی آزادی کے چند ماہ بعد مولو وہیں رکا رہا،کہ اس کی بیوی کے دم کا بھروسہ نہ تھا۔ اس نے کئی بار ڈاکٹر سے مشورہ بھی کیا کہ کیا مرسی کلنگ مناسب نہ رہے گا مگر اسی اثنا میں خدا نے آپ ہی اپنی مرسی کے دروازے کھول دیے۔ مولو نے پوری ہندو رسومات کے ساتھ مرحومہ کے دھوئیں کو بیکنٹھ کی طرف اڑانے کا اہتمام کیا اور خود آپ کینیا کی آزادی کا پہلا جشن خوب دھوم دھام سے مناکر امریکہ اڑ آنے کے لیے ہوائی جہاز میں آبیٹھا۔ راستے میں چاند اس کے جہاز کے ساتھ ساتھ دور تک دوڑتا رہا۔۔۔ مولو۔۔۔ مولو۔۔۔ شاید وہ اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سوگیا اور۔۔۔ اور۔۔۔


وہ سیالکوٹ میں اپنے ماں باپ کے کچے آنگن میں چاندنی میں اپنے سائے سے کھیل رہا ہے۔۔۔ مولو۔۔۔ اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی ہے۔۔۔ اب اندر آکے سو جاؤ بیٹا۔۔۔ نہیں ماں، مجھے نیند نہیں آرہی ۔۔۔ مولو۔۔۔ اس کے باپ نے اسے ڈانٹ کر بلایا ہے۔۔۔ چلو، اندر آؤ۔۔۔آیا، بابا۔۔۔


مولو ہڑبڑاکر اپنی ہوائی جہاز کی سیٹ میں جاگ پڑا۔۔۔ مولو۔۔۔ دوڑتے دوڑتے چاند کی سانس پھول گئی تھی مگر وہ ابھی تک ویسے ہی اس کے پیچھے چلا آرہا تھا۔۔۔ مولو۔۔۔ یہاں سے بھی آگے جارہے ہو مولو؟ وہاں تمہارا کون ہے۔۔۔؟ آؤ مولو، میں تمہیں بابا اور ماں کے پاس لے چلتا ہوں۔۔۔ آؤ۔۔۔ مولو کی آنکھیں پھر مندنے لگیں۔


سوجاؤ مولو۔ بہت کھیل لیے ہو۔۔۔ آؤ، آکے سوجاؤ۔۔۔ مولو۔۔۔ آیا، ماں۔۔۔ وہ اپنے پہلے گھر کے کچے آنگن سے کوٹھری میں داخل ہو رہا ہے اور چاندنی بھی دبے پاؤں اس کے پیچھے چلی آرہی ہے اور چند قدم میں ہی اس کے آگے ہوکے اس کی چارپائی پر اچھل آئی ہے اور وہ اسے یہاں بھی پاکر کھل کھلاکر ہنس پڑا ہے۔۔۔۔ دیکھو، مولو کی ماں، تمہارا باؤلا بیٹا آپ ہی آپ ہنسے جارہا ہے۔۔۔ سوجاؤ، بیٹے! سویرے اسکول جانا ہے۔۔۔ ہاں، بابا۔۔۔ چادر میں چاندنی کو بھی لیے مولو نے سات بار اوم کا جاپ کرنے کے لیے منہ کھولا ہے مگر چھٹی بار نیند ہی نیند میں ایک اور نیند میں اتر آیا ہے۔۔۔ ماں۔۔۔ ماں ۔۔۔ اور بابا کہاں کھوگئے۔۔۔؟ با۔۔۔با۔۔۔ وہ انہیں بابے بیری کے میلے میں ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔ ماں۔۔۔ مولو بے اختیار رونے لگا ہے اور سارے میلے میں رو رو کر گھومتے ہوئے دونوں نیندوں کی سرحدوں سے باہر نکل آیا ہے۔


آنکھ کھلنے پر بھی وہ اپنے معصوم گریہ سے کان نہیں ہٹا پایا۔


اور۔۔۔ مگر کینیا کا سفیر اسے مخاطب کرکے کہہ رہا تھا، ’’اگلے ویک اینڈ کو میرا کینیا جانے کا پروگرام تھا بوانا مولو، مگر میں نے اپنی روانگی صرف اس لیے ملتوی کردی ہے کہ تمہارے گریٹ گبئر مرحوم کی برتھ اینی ورسری کا گریٹ ڈنر بھی اسی دن ہے۔‘‘


’’اٹ از آور گریٹ پریولج۔‘‘


مولو گریٹ گبئر مرحوم کا پروٹیجی بھی تھا اور اس کی زندگی میں اس کے ’آل ورلڈ‘ کا پارٹنر بھی۔ گریٹ گبئر کی بیوی یہاں امریکہ آنے سے پیشتر وہاں کینیا میں ہی ایک جرمن وائٹ ہائی لینڈر کی بیوی تھی اور وہاں مولو سے بھی اس کا افیئر چلتا رہا تھا۔ اسی کے ذریعے مولو کا گبئر سے رابطہ پیدا ہوا تھا، جس کے بعد دو ایک سال میں ہی وہ اتنے قریب آگئے کہ گبئر نے اسے اپنی صحافتی سلطنت میں برابر کا حصہ دار بنالیا تھا۔ گبئر کو شراب کی اتنی لت تھی کہ پیے بغیر ہوش میں نہ آتا تھا اور ڈاکٹروں کی باتوں میں آکے کبھی پینے سے ہاتھ کھینچ لیتا تو بیٹھے بیٹھے بھی لڑکھڑا جاتا۔ اپنی بیوی کے مانند اسے بھی مولو سے عشق تھا، شاید اس لیے کہ اس کی ماں بھی ہندوستانی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ فوراً اپنے آپ کو درست کرکے مولو کو بتاتا۔۔۔ دراصل میرا باپ ہندوستانی تھا۔ میرا مطلب ہے، میری ماں ہی میرا باپ تھی، کیوں کہ اسی نے اپنی نہایت کڑی نگہداشت میں مجھے اونچا کیا۔۔۔ گبئر ہنسنے لگتا۔۔۔ میرے بگڑنے کا یہی سبب ہے کہ میری ماں مجھے لمحہ بھر بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی۔ جب وہ مر گئی تو خود کو اس کی نظر سے بندھا ہوا نہ پاکر میں بے روک ٹوک اپنے موجودہ جہنم کی طرف بڑھتا چلا آیا۔۔۔


’’تمہارا با۔۔۔؟‘‘


’’میرے امریکی باپ کو پیسہ کمانے سے فرصت ہی کہاں تھی؟ اسے تو یہ بھی خبر نہ تھی کہ میں اس کا بیٹا ہوں یا اس کے پڑوسی کا۔۔۔ اسے چھوڑو مولو، تم مجھے اپنی ماں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔۔۔ نہیں، میری شراب میں پانی مت ملاؤ۔‘‘ کبئر اسے ٹوکتا۔ ’’مولو، ہندوستانی ماؤں کے بارے میں میری لاعلمی مضحکہ خیز ہے۔ تم اپنی ماں کا کچھ ایسا خاکہ کھینچو کہ میں بھی اپنی ماں کو جاننے پہچاننے لگوں۔‘‘


گبئر اس لیے پیتا تھا کہ ہوش میں رہے، اور مولو اس لیے کہ ہوش کھو بیٹھے۔ کئی بار ایسے ہوا کہ شراب پی کر مولو خواہ آسمان کی طرف دیکھتا خواہ اپنے ذہن میں، دھند ہی دھند میں کہیں سے وہی چند آنمودار ہوتا۔۔۔ آؤ گے نہیں، مولو۔۔۔؟آؤ، ماں تمہاری راہ تک رہی ہے۔


’’تم کہاں چلے گئے تھے مولو؟‘‘ گبئر کی بیوی نے ایک دن اس سے کہا تھا۔ ’’میں پچھلے دس دن سے تمہارا راستہ دیکھ رہی ہوں۔‘‘


مگر نشے میں ہوش کھوکر وہ مولو کو اپنی ماں ہی معلوم ہو رہی تھی اور اس کی گود میں سر رکھ کر اس کا رونا تھمنے میں نہیں آرہا تھا اور گبئرکی بیوی نے جلدی جلدی اس کے اور اپنے کپڑے اتار کر اسے اپنے ساتھ رضائی کی حدت میں لٹا لیا تھا اور اس سے والہانہ پیار کرنے لگی تھی، مگر مولو سسکیاں بھرتے ہوئےاپنے خواب میں ڈوبا جارہا تھا۔


’’مولو، تمہارے گریٹ گبئر کی دلچسپ گفتگو کی گونج ابھی تک ویسے ہی کانوں میں محسوس ہوتی ہے،‘‘ نیوزی لینڈر، جو یہاں ایک مدت سے رہ رہا تھا، مولو کو مخاطب کرکے اس کی توجہ طلب کر رہا تھا۔


’’اسی لیے ہمارے ’آل ورلڈ‘ نے اس ڈنر میں ایک ایکٹر کی خدمات حاصل کی ہیں،‘‘ مولو نے اسے بتایا۔ ’’اس ایکٹر کی باتیں سن کر یہی لگتا ہے کہ گبئر ہی راکٹ میں سوار ہوکر جہنم سےآپہنچا ہے۔‘‘


’’کیا امریکی سرکار نے اپنی سپیس ٹیکنالوجی شیطان کو بھی بیچ دی ہے،‘‘ پاکستانی سفارت کار سے نہ رہا گیا۔


’’میں تو رائے دوں گا کہ جسے بھی ہماری سپیس ٹیکنالوجی حاصل کرنا ہے وہ شیطان سے غیرمشروط راہ اور ربط پیدا کرے۔‘‘


’’نعوذ باللہ۔۔۔‘‘ عرب ریپبلک کے نمائندے نے بے اختیار بہ آواز بلند کہا جسے سن کر مولو کو اچانک گھر لوٹنے کی خواہش ہونے لگی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔


’’چیئر یو، ایوری باڈی!‘‘


چند ہی قدم پر ہال کے بیرونی دروازے پر میزبان اور اس کی بیوی جانے والوں کو شب بخیر کہنے کے لیے کھڑے تھے۔


’’میں تم سے بہت خفا ہوں مولو،‘‘ پچھلے ماہ مولو نے اپنے ’آل ورلڈ‘ میں پورے نصف صفحے پر ہوسٹس ڈالی کی تصویرشائع کی تھی جس باعث وہ اس پر خاص مہربان تھی اور اس سے بڑی بے تکلفی سے پیش آنے لگی تھی۔


’’ڈالی ڈیئر، کل تک بھی اسی طرح ناراض رہنا۔‘‘


’’کیوں؟‘‘


’’اس وقت میں نشے میں ہوں،‘‘ مولو نے اسے جواب دیا۔ ’’اس وقت کیسے بتاسکتا ہوں کہ خفا ہوکر تم واقعی زیادہ خوبصورت معلوم ہونے لگتی ہو۔‘‘


’’ہاؤ ناٹی!‘‘


’’ٹا۔۔۔ٹا!‘‘


مولو آگے بڑھنے لگا تو اسکی چال ڈھال دیکھ کر ڈالی کا شوہر بولا، ’’ٹھہرو مولو۔ نشے میں ہو تو ایک ٹاٹ اور چڑھا جاؤ۔‘‘ وہ شاید آل ورلڈ میں اپنے سن ڈاؤنر کے رائٹ اپ سے متعلق سوچ رہاتھا۔ ’’ہوش آجائے گا۔‘‘


’’ہوش آجائے گا مائی ڈیر رولی، تو کونسا خدا نظر آنے لگے گا،‘‘ مولو آگے بڑھنے لگا تو رولی کے اشارے پر ایک سٹیورڈاس کے ساتھ ہولیا اور وہ گویا اسی کے پیروں پر چل کر اپنی کار کے پاس آکھڑا ہوا۔


مولو کو گاڑی چلانے کا ہوش ہی کہاں تھا؟ بس یہی سمجھ لیں کہ اس کی گاڑی آپ ہی آپ چلتی جارہی تھی۔ اس کی زندگی کی گاڑی بھی یوں ہی چلتی آئی، اسی لیے تو وہ سیالکوٹ کے چاؤناں محلے سے یہاں نیویارک آپہنچا، ورنہ اپنی مرضی سے اسے کہیں سے کہیں پہنچنا ہوتا تو محلہ چاؤناں سے محلہ دھارووال سے آگے قدم نہ رکھتا۔ دھارووال میں۔کیا نام تھا اس کا۔۔۔؟ جبیں رہا کرتی تھی۔ ستارہ جبیں مولو کی پہلی محبوبہ تھی اور وہ اسے ابھی تک اسی لیے نہیں بھول پایا تھایا پھر شاید اس لیے کہ اسےاس کانام بہت پسند تھا، یا شاید چہرہ۔۔۔ مولو کو اچانک ستارہ جبیں کا خیال آگیا تھا اور وہ اس کاچہرہ آنکھوں میں لانے کی کوشش کر رہا تھا مگر ایک اس چہرے کے سوا دنیا بھر کی عورتوں کے چہرے یکے بعد دیگرے اس کے سامنے آرہے تھے۔ نہیں، وہ اس کی شکل بھولا تو نہیں تھا مگر۔۔۔ اس نے مسکراکر سرہلادیا۔ مگر پتہ نہیں اس کی کیا شکل تھی۔ بڑی بھلی شکل تھی، اتنی بھلی، کہ اس نے جبیں کو بے جھجک بتادیا تھا، تم میرا آدرش ہو، میرا سب کچھ۔۔۔ نہیں ، جی ہی جی میں بتایا تھا۔ سچ مچ تو اس نے اپنی ستارہ جبیں سے بات بھی نہ کی تھی۔ اسے تو شاید معلوم ہی نہ تھا کہ مولو اس سے محبت کرتا ہے۔ مولو نے اپنی محبت کو اپنی ذات کا ایک نہایت مقدس راز سمجھ کر سینے سے لگائے رکھا۔ مولو کھلکھلاکر ہنس پڑا۔ مقدس راز۔۔۔ عمر گنواکر اس پر کھلا تو یہ تھا کہ محبت ایک پبلک افیئر ہے جس سے بھی چاہو محبت کرو مگر اس کی اور اپنی سہولت کے مطابق کرو، اور چاہنے والے بہت زیادہ ہوں تو صبر سے کام لے کے اپنی باری پر کرلو۔۔۔ اور کیا۔۔۔؟


مولو پر جو ہنسی کا دورہ پڑا تو اس کی گاڑی ذرا غلط پہلو کی طرف کھنچ آئی اور مخالف سمت سے اک برق رفتار کار کے ڈرائیور نے اپنے پھیپھڑوں سےآواز بلند کی، ’’بلڈی فول!‘‘ مگر مولو کو اپنی ترنگ میں جو خواہش اٹھی تو اس نے یہی راگ الاپنا شروع کردیا۔ آئی ایم اے بلڈی فول!آئی ایم۔۔۔ اے بلڈی فول۔۔۔ وہ اپنے سامنے سڑک پر نگاہ جمائے نامعلوم کہاں پہنچاہوا تھا اور اس کی گاڑی از خود اڑی جارہی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ کر وہ گویا سٹیئرنگ، تھراٹل یا سوچ بورڈ کے مانند گاڑی کا ہی کوئی حصہ بن جاتا، گاڑی ہی بن جاتا، اور اس پر بھی اپنے آپ کو سوچتے ہوئے پاکر اسے تعجب ہونے لگتا کہ گاڑیاں کیوں کر سوچ سکتی ہیں۔ چند ہی روز پہلے اس نے اپنے ’آل ورلڈ‘ میں ہیومن آٹو موبیلز کے موضوع پر ایک مڈل میں اپنے قارئین کو یہ واقعہ سنایا تھا، ’’پرسوں میں اپنی کار میں ڈیوک آف ایڈنبرا کی آمد پر اس سے انٹرویو کرنے برٹش ایمبیسی جارہا تھا۔ ایمبیسی سے تھوڑی ہی دور میری کار اچانک پنکچر ہوگئی۔ ڈیوک آف ایڈنبرا سے میری اپوائنمنٹ کا وقت گزرا جارہا تھا وار مجھے گاڑی کا پہیہ تبدیل کرنے کے خیال سے الجھن ہو رہی تھی۔ پانچ سات منٹ گومگو میں ہی گزر گئے اور پھر مجھے ایک دم جیسے اپنی مشکل کا حل سوجھا۔۔۔ ارے۔۔۔ دو سو گز کا فاصلہ ہی تو ہے۔ پیدل ہی کیوں نہ چلا جائے۔۔۔ ارے ہاں۔۔۔ اس انکشاف پر خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں بھول ہی گیا تھا میرے ٹانگیں بھی ہیں۔۔۔’’ آئی ایم اے بلڈی فل!


مڈل یاد آنے پرمولو گویا اپنے سامنے آل ورلڈ کھولے ڈیوک آف ایڈنبرا سے اپنا انٹرویو پڑھنےلگا تھا۔


مجھے زرد رو پاکر ڈیوک آف ایڈنبرا کو شاید خیال گزرا کہ آل ورلڈ نے اپنے جونیئر سٹاف میں سے کسی کو بھیج دیاہے۔ پھر بھی اس نے۔۔۔ جیسا کہ اس کے تعلق سے مشہور ہے۔۔۔ خوش دلی سے کہا، ’’ہیلو! کیا نام ہے تمہارا؟‘‘


’’یوئر رائل ہائی نیس،‘‘ میں تو سوچ کر ہی آیا تھا کہ مجھے اسی طرح انٹرویو کو شروع کرنا ہے۔ ’’ایک زمانہ تھا کہ لوگ مجھے بھی ڈیوک آف انڈنبرا کہا کرتے تھے۔‘‘


’’مائی!‘‘ مجھے معلوم تھا کہ ڈیوک آف ایڈنبرا کی مزاح کی رگ اگر پھڑک اٹھے تو وہ اپنی لاگت پر بھی بولنے سے نہیں چوکتا۔ ’’کیا تمہاری بیوی بھی کہیں کوئی ملکہ ہے؟‘‘


’’ہاں، یوئر رائل ہائی نیس۔ آپ کے یہاں تو گروسر کی بیٹی کو پرائم منسٹر کے آفس تک ہی روک دیا جاتاہے مگر ہمارے یہاں ایسٹ افریقہ میں ہندوستانی گروسروں کی بیٹیاں ملکائیں قرار دی جاتی تھیں اور ہم ہندوستانی درآمد شدہ بھوندو شوہر، آپ کے مانند ڈیوک۔‘‘


ڈیوک آف ایڈنبرا کسی اسکول بوائے کی معصومیت سے ہنسنے لگاتھا، ’’تو آؤ، اپنی اس کامن پرابلم سے ہی انٹرویو کا آغاز کریں۔‘‘


’’یوئر رائل ہائی نیس، اگر اپنی بیوی کی بجائے آپ حکمران ہوتے تو۔۔۔‘‘


میرا پورا جملہ ادا ہونے سے پہلے ہی ڈیوک نےجواب دیا، ’’تو میں اپنی ساری بے چارگی اور ڈیوک آف ایڈنبرا کالقب فوری طور پر کوئین کو سونپ دیتا۔‘‘


قہہ قہہ ہنستے ہوئے مولو کو محسوس ہوا کہ اس کی گاڑی کے پہیے سرک کے ٹیڑھے میڑھے پتھروں پر اچھلنے لگے ہیں۔ وہ سوچنے لگا تھا کہ اگر میں اپنی بیوی کے علاج میں اپنی دعائیں بھی شامل کرلیتا تو شاید ۔۔۔ مگر وہ اپنے آپ کو بتانے لگا کہ کسی نے بھلا شیطان کو بھی دعائیں مانگتے دیکھاہے۔ شیطان کی شہزادگی تو خدا کا مذاق اڑانے کے دم سے ہے۔ دعا کی صلاحیت کھو کر ہی تو وہ اپنے بڑے امریکی فورتھ اسٹیٹ کو اپنی ملکیت میں لاپایا ہے۔۔۔ مسٹر پریزیڈنٹ۔۔۔ اس نے ایک دفعہ اپنے ایک ایڈیٹوریل میں یو۔ایس۔اے کے صدر کو راست مخاطب کرکے متنبہ کیا تھا۔۔۔ یہ کیا تک ہوئی کہ جہاں تمہاری منطق جواب دےجاتی ہے وہاں تم کانگریس کو خدا کا واسطہ دینے لگتے ہو۔۔۔؟ مولو اپنے واقف کاروں کو بتایا کرتا کہ مجھے جب بے منطق نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے تو خواہ مخواہ خدا کو ڈسٹرب کرنے کی بجائے میں خوب شراب چڑھاکر اپنی گاڑی میں بے تحاشہ جنگلوں کی طرف ہو لیتا ہوں اور وہاں کسی ٹری ٹاپ ہالی ڈے ان کے محفوظ چبوتروں سے اس وقت تک چوپاؤں کی زندگی کے فطری اسباب کا مطالعہ کرتاہوں جب تک میری سمجھ میں پوری طرح نہ آجائے کے سب سے بڑی نیکی کیوں کر وہی ایک ہے جو ہر ذی جاں اپنے ساتھ برت پاتا ہے، اور نہ برت پائے تو کوئی اور اسی کی نیکی کو برت کر اسے ہڑپ کر جاتا ہے۔


’’تم نیک انسان نہیں،‘‘ اس کی کینیا کی ہندوستانی بیوی اس سے لڑتے ہوئے اکثر کہاکرتی۔ ’’جب تم مجھے اپنی باہوں میں لیتے ہو تو میری کوکھ سکڑ کر بند ہوجاتی ہے اور میں تمہاری چوٹیں برداشت کیے جاتی ہوں اور بس۔۔۔‘‘


سن آ، اے بچ۔۔۔ مولو اپنی بیوی کو کوس رہا تھا کہ شاید اس کی گاڑی کے پہیوں تلے رات کا کوئی جانور آگیا مگر نشے میں کسی کی چیخیں کہاں سنائی دیتی ہیں۔ ساری زندگی مجھ سے نفرت کرنے کے باوجود شکایت کرتی رہی کہ میں اس سے محبت نہیں کرتا۔


’’تو کیا کرتاہوں؟‘‘


’’دھندا۔۔۔‘‘


مولو کی موجودہ سفید بیوی بھی اس سے یہی کہا کرتی۔۔۔ ڈارلنگ، جب تم میرے بدن پر اچھل کود میں مصروف ہوتے ہو تو مجھے لگتا ہے تمہارے کسی بیوٹی فل لٹل یڈیٹوریل سےلطف اندوز ہو رہی ہوں اور بس۔


سن آ، اے بچ۔۔۔ اس نے اپنی اس بیوی کو بھی گالی بکی۔ میری بے مہر مباشرت کے باعث میرے بچے میرے خون میں ہی بوڑھے ہوکر رہ گئے ہیں اور میں انہی کا بلغم تھوکتا رہتا ہوں۔۔۔ اس نے شکر اداکیا کہ اس کی اولاد پیدا ہونے سے رہ گئی، ورنہ پیدا ہوتے ہی کھانس کھانس کر اس سے مخاطب ہوکر کہتی۔ ڈیڈ! فرماں بردار باپ اپنی اولاد کے احکام کو تولتے نہیں، انہیں بجالاتے ہیں۔۔۔ ہہ ہہ ہا۔۔۔ ہہ ہا۔۔۔ مولو کی ہنسی روکے نہ رک رہی تھی، شاید وہ اپنے خون میں کھانستی اولاد کے کھوسٹ رویوں پر ہنسے جارہا تھا یا شاید یواین او کے ڈپٹی سکریٹری کے سن ڈاؤنر میں اس بوڑھے ایشیائی پروفیسر رادھا سوامی پر، جس کی باتوں میں گھر کر تین چار حسیناؤں کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ فرار کی کیا صورت کریں۔ لڑکیوں کی بے چارگی کے منظر سے محظوظ ہوکر مولو بھی پروفیسر کے گھیرے میں جاداخل ہوا تھا۔


’’بھوک خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے خوب صورت لڑکیو،‘‘ ایشیائی پروفیسر کی نظر امریکی لڑکیوں کو چاٹ چاٹ کر کھا رہی تھی۔


’’تمہارے امریکہ کاسب سے بڑا مسئلہ اس کارجھا پن ہے۔ اسے بھوک ہی نہیں لگتی، مگر کوئی کھائے نہیں تو جیے گاکیسے؟ لہٰذا امریکہ موت کے خوف سے بے بھوک کھاتا رہتا ہے۔۔۔‘‘


’’میں آپ کے کھانے کے لیے کچھ لاتی ہوں۔‘‘


’’نہیں،‘‘ پروفیسر نے بولنے والی لڑکی کے کندھے کو مضبوطی سے تھام لیا۔ ’’پہلے میں تمہیں ایک مہاراجہ کی کہانی سناتاہوں۔ اس کہانی سےمیری ساری بات واضح ہوجائے گی۔‘‘


اسی دم بوڑھے پروفیسر کی نوجوان بیوی بھی اسے ڈھونڈتی ہوئی آپہنچی اور اس کاآخری جملہ سن کر بولی، ’’تم خوامخواہ اپنا وقت ضائع کر رہی ہو لڑکیو۔ میرا شوہر اپنی بات کو کبھی واضح نہیں کر پائے گا۔ اسے سن کر مجھے تو وہ کچھ بھی غیر واضح معلوم ہونے لگتاہے جو پہلے عین واضح تھا۔‘‘


’’کیاواضح تھا؟‘‘ فلسفے کا پروفیسر اپنی بیوی سے پوچھنےلگا جو ماحولیاتی آلودگی کے انسداد پرتحقیق کے کام پر مامور تھی۔۔۔ ’’پولیوشن؟‘‘


’’ہائی، مولو!‘‘ مسز رادھا سوامی مولو کو بھی وہیں پاکر کل اٹھی۔ ’’مائی ڈیئر ہزبینڈ کو سمجھاؤ مولو، کہ پولیوشن صرف دھوئیں اور گیس سے نہیں ہوتی، باتونی لوگوں کے شور سے بھی پولیوشن بڑھ رہی ہے۔‘‘


’’میں نے تو سنا ہے لاجی،‘‘ مولو نے مسز رادھا سوامی کو جواب دیا، ’’کہ آدمی کے برے خیال بھی سانس کے راستے ماحول میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔‘‘


لاجی نے اس کی طرف دیکھ کر کرشن کی گوپی سی بنے اپنی ساؤتھ انڈین پتلی کمریا کو بل دیا، گویا یہ کہنے کے لیے، کچھ برا بھلاسوچو تو جانوں بھی مولو، نہیں تو کیا پتہ کیا ہے؟


’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ حسیناؤں میں سے ایک نے سوال کیا، ’’کہ ہماری پولیوشن سے ہماری دنیا گرین ہاؤس میں منتقل ہوتی جارہی ہے؟‘‘


’’ہاں‘‘ دوسری بولی، ’’پولیوشن سے آسمان میں یہ جو گرین ہاؤس بن رہاہے، کیا مجال، اس کی دیواروں سے باہر کچھ جاپائے۔‘‘


’’گرین ہاؤس کی چھت موٹی ہوتی چلی گئی تو ہمارا گلوب جہنم بن جائے گا۔‘‘


’’مولو۔‘‘ مانو اچانک یاد آنے پر مسز رادھا سوامی رک نہ سکی۔ ’’میں نےآج تمہارے ’آل ورلڈ‘ میں پڑھا ہے کہ چاند کے پہلےٹرپ کے لیے دھڑا دھڑ بکنگ کی جارہی ہے۔‘‘


مولو۔۔۔ مو۔۔۔لو۔۔۔ مولو کی گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی کہ اسے یک بیک چاند کی مانوس آواز سنائی دی جو آسمان سےاتر کر اس کی متصل نشست کی کھڑکی پر آبیٹھا تھا۔ چلو، مولو، میں تمہیں لینے آیا ہوں۔۔۔ کہاں کیا؟ آؤ۔۔۔ مولو۔۔۔


مولو نےسوچ رکھا تھا کہ گھر پہنچنے سے پہلے وہ وہسکی نہیں پیے گا مگر اپنی خواہش سے مغلوب ہوکر اس نے ڈرائیور کی سیٹ کے پہلو کے ایک تھیلے سے وہسکی کی بوتل نکالی اور ابھی اسے کھول کر منہ سے بھی نہ لگاپایا تھا کہ اس کی گاڑی سڑک کے کنارے اس موڑ پر نیچےوادی میں لڑھک گئی۔


مولو بچ گیا تھا۔


اسے اسپتال میں داخل ہوئے کوئی ہفتہ بھر ہولیا تو ایک صبح ڈاکٹر نے اس کے زخموں کے معائنے کے بعد تشفی میں سرہلایا اور اسے بتانے لگا، ’’جب تمہیں یہاں لایا گیا تھا مسٹر مولو، تو ہم دو ڈاکٹروں کی رائے میں تمہاری مکمل موت واقع ہوچکی تھی، مگر پھر کیا ہوا، کہ تم نے یکلخت آنکھیں کھول لیں۔‘‘


’’میں آنکھیں کیسے نہ کھولتا ڈاکٹر۔۔۔؟‘‘ مولو اسے بتانے لگا۔ ’’میری روح واقعی اڑان بھرچکی تھی، مگر کہاں جاتی؟ ذرا سی اوپر گئی تو گرین ہاؤس کی چھت کے نیچے ہی پھڑپھڑاکر رہ گئی، اور نجات کی کوئی راہ نہ پاکر اپنا جہنم جینے کے لیے لوٹ آئی۔‘‘