جاگیردار
وہ بارہ تیرہ سال کی بڑی معصوم شکل چھوکری تھی۔ دروازہ کھلتے ہی پہلے تو مجھے دیکھ کراس نے اپنا ہاتھ جھٹ سے پیچھے کرلیا اور پھر جھجکتے ہوئے اسی ہاتھ کو آگے بڑھاکر بولی، ’’یہ چٹھی۔۔۔‘‘
میں اس کے ہاتھ سے کاغذ کا پرزہ لے کر پڑھنے لگا۔
جناب عالی، میں آپ کے محلے میں ہی رہتا ہوں۔ کبھی بہت اچھے دن دیکھے تھے۔ آج بہت نازک صورت حال سے دوچار ہوں۔ اپنی بیٹی کو بھیج رہاہوں، ممکن ہو تو کم سےکم پانچ روپے بھیج دیجیے تاکہ گھر میں ہانڈی پک سکے۔ آپ کے پیسے جلد ہی لوٹادوں گا۔ شریف آدمی ہوں مگر۔۔۔
میں نےآخری دوسطریں پڑھے بغیر چٹھی لکھنےوالے کانام دیکھنے کے لیے نظر نیچے سرکالی۔۔۔ جاگیردار۔۔۔ اور جیب سے پانچ کانوٹ نکال کر لڑکی کے ہاتھ میں تھمادیا۔
مجھے یہاں رہائش اختیار کیے پوراایک ماہ بھی نہ ہوا تھا اور اتنے بڑے محلے کے سبھی لوگوں سے تو کیا، اپنے فوری پڑوسیوں سے بھی میں ابھی تک ناواقف تھا۔۔۔ہوگا کوئی غریب بے چارہ۔۔۔ میں دروازہ بند کرکے واپس اندر آگیا۔
اس واقعے کو کوئی ڈیڑھ دوماہ ہولیے۔ میں ایک دن سنیما کے میٹنی شو کے لیے جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
دروازے پر وہی لڑکی کھڑی تھی۔
مجھے خیال آگیا کہ شاید پیسے لوٹانےآئی ہے۔
’’یہ چٹھی۔۔۔‘‘
اس کے باپ نے اسی عبارت میں پھر پانچ روپے مانگ بھیجے تھے۔ میں نےجلدی سے جیب سے دو روپے نکالے اور لڑکی سے کہا۔ یہی لے جاؤ۔
لڑکی چلی گئی تو مجھے شرمندگی سی ہوئی۔۔۔ کوئی ایسی مجبوری ہی ہو تو سفید پوش اس طرح ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ مجھے پانچ ہی بھیج دینا چاہیے تھے۔
اس کے بعد وہ لڑکی مجھے تین چار ماہ تک نظر نہ آئی اور پھر ایک دن دروازے پر ویسی ہی کھٹکھٹاہٹ ہوئی۔
وہی لڑکی کھڑی تھی۔
’’یہ چٹھی!‘‘
جاگیردار نے عین اسی عبارت میں اب کے دس روپوں کامطالبہ کیا تھا۔ میں نے مسکراکر لڑکی کے ہاتھ میں اس دفعہ بھی دو کانوٹ تھمادیا اور یونہی سوچنےلگا کہ بھلا آدمی اسی طرح مانگ تانگ کر وقت کاٹنےکا عادی معلوم ہوتا ہے۔۔۔ چلو۔ میں نےدو ہی تو دیے ہیں۔ سرجھٹک کر میں اپنےکام میں مشغول ہوگیا۔
گزشتہ سات آٹھ ماہ کے بیشتر ایام میں نےکاروبارکے سلسلہ میں گھر کے باہر بتائے۔ اس دوران وہ لڑکی کبھی آئی ہو تو مجھے معلوم نہیں۔ آج صبح کے وقت میں دودھ والے کاانتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر گھٹی کی آواز سن کر میں برتن لے کر باہر آگیا کہ دودھ ڈلوالوں۔ دروازے پر دودھ والے کی بجائے ایک ادھیڑ عمر شریف پوش شخص کھڑا تھا۔
’’میرا نام جاگیردار ہے۔‘‘
’’آئیے۔‘‘
’’نہیں مختصر سی بات کرنا ہے۔ یہیں کیے دیتا ہوں۔‘‘
’’کہیے۔‘‘
’’اس بار لڑکی کو چٹھی دے کرنہیں بھیجا، آپ ہی حاضرہوگیا ہوں۔۔۔ مجھے آپ سے یہ درخواست کرناہے کہ۔۔۔‘‘
میں نےاسے روپیہ دو روپے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا۔
’’نہیں، ٹھہریے، پہلے میری گزارش سن لیجیے۔۔۔ میں اپنی چھٹیوں میں جو رقم لکھوں، مہربانی کرکے آپ وہی بھیجاکریں۔‘‘ میں اس کی طرف حیرت اور غصے سے دیکھنے لگا۔
میری بیٹی اب پوری جوان ہوچکی ہے جناب، اب تو آپ کو پورے ہی پیسے چکانےہوں گے!