گھٹن بھی دیکھ رہی ہے مجھے حیرانی سے

گھٹن بھی دیکھ رہی ہے مجھے حیرانی سے
کہیں میں اوب ہی جاؤں نہ اس جوانی سے


سزائے موت نہیں عمر قید کاٹو گے
یہ حکم آ ہی گیا دل کی راجدھانی سے


ذرا سا عشق کیا اور اب یہ حالت ہے
وہ بہہ رہا ہے رگوں میں عجب روانی سے


اداسیوں میں بھی شکوا بھلا کریں کس سے
بچا ہے کون محبت میں رائیگانی سے


کبھی کبھی تو مجھے خود پہ ہنسی آتی ہے
مجھے یہ عشق ہوا بھی تو اک دوانی سے


میں کوششوں میں ہوں اک جسم کو بنانے کی
ہوا سے آگ سے مٹی سے اور پانی سے


اداس ہو چکا کردار چیخ کر بولا
مجھے نکال دو اب اس دکھی کہانی سے