غزل : تھا مستعار حسن سے

تھا مستعار حُسن سے اُس کے ،جو نور تھا

 

تھا مستعار حُسن سے اُس کے ،جو نور تھا

خورشید میں بھی اس ہی کا ذرّہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کُن جو دلِ ناصبور تھا

پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم

یک شعلہ برقِ خِرمنِ صد کوہِ طور تھا

مجلس میں رات ایک تِرے پرتوے بغیر

کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

اس بزم میں کہ گل کا گریباں بھی ہے ہوا

دیوانہ   ہو   گیا   سو   بہت   ذی   شعور   تھا

منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا

اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو عور تھا

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر

اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

 

قطعہ

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمِیں میں میرؔ

سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنے قصور تھا

 

بحر : مضارع مثمن اخرب مکفوف  محذوف

(مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن)