گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا

گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا


غیرت اہل چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا


حسن کا چہرہ بھی ہے اترا ہوا
آج اپنے غم کا اندازہ ہوا


پرسش غم آپ رہنے دیجئے
یہ تماشا ہے مرا دیکھا ہوا


یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے
اس جگہ اک میکدہ تھا کیا ہوا


غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا


اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں
اے فناؔ رہزن کو بھی صدمہ ہوا