غریب خانہ ہمیشہ سے جیل خانہ ہے

غریب خانہ ہمیشہ سے جیل خانہ ہے
مرا مزاج لڑکپن سے لیڈرانہ ہے


الٰہی خیر دل زار و ناتوان کی خیر
کہ آج ان کا ہر انداز ہٹلرانہ ہے


تم آج کیوں یہ گورنر سے بن کے بیٹھے ہو
کہو کہو مری جاں کس کو آزمانا ہے


دلوں کا فرش بچھا ہے جدھر نگاہ کرو
تمہارا گھر بھی دلوں کا کباڑ خانہ ہے


نہ دیکھ آہ مجھے اے نگاہ یار نہ دیکھ
کہ آج تیرا ہر انداز جارحانہ ہے


مجھے ضمیرؔ خدا کے کرم سے کیا نہ ملا
مزاج گرم طبیعت بھی شاعرانہ ہے