گردش جسے مطلوب ہے گلزار میں آوے
گردش جسے مطلوب ہے گلزار میں آوے
ہے عشق جسے وادیٔ پر خار میں آوے
اک روز کبھی شکل خریدار میں آوے
دیکھے تو ذرا کوچہ و بازار میں آوے
جاتے ہوئے جاوے ہے عزیزوں کو رلا کر
مولود جو روتا ہوا سنسار میں آوے
ہوں سامنے میں اس کے وہ مارے کہ جلاوے
منظور ہے جو بھی نگۂ یار میں آوے
بدنام اگر ہوگا تو کیا نام نہ ہوگا
ہے شوق اسے سرخیٔ اخبار میں آوے
دعوت کا اگر شوق ہے جاوے وہ کہیں اور
کرنے کو سیاست نہ وہ افطار میں آوے
آئینے میں شکل اس کی دکھا دے گا وہ اس کو
برقیؔ کے اگر لطف اسے اشعار میں آوے