گاندھی کے بعد
بعد گاندھی کے نہ سن ہم نے سماں دیکھا کیا
فصل گل آتے ہی ہر باغ و چمن اجڑا کیا
دل ہی افسردہ ہو جب پیشکش صہبا کیا
آنکھ ہی جب نہ رہے دعوت نظارہ کیا
زندگی موت سے بد تر ہو تو پھر جینا کیا
بھوک سے دامن ہستی کو سیے جاتے ہیں
زندگی چھین کے اوروں کے جیے جاتے ہیں
ہر نفس عہد وفاؤں کے لیے جاتے ہیں
خون ارزاں ہے غریبوں کا پیے جاتے ہیں
جب یہ پینے ہی پر آ جائیں تو پھر دریا کیا
حسن بھی غمزہ و انداز و ادا بھول گیا
عشق بھی جلوۂ رنگیں کی ضیا بھول گیا
جو پرستار وفا تھا وہ وفا بھول گیا
راہ سنتے ہیں کہ خود راہنما بھول گیا
کارواں منزل مقصود پہ پہنچاتا کیا
یہ جو آئی ہے ہمارے ہی لہو کی ہے بہار
یہ جو اڑتا ہے ہمارے ہی دلوں کا ہے غبار
برہمن ہے تو کوئی عابد شب زندہ دار
کوئی سنتا نہیں اس دور میں انساں کی پکار
بزم ماتم میں جو چھیڑے تو کوئی نغمہ کیا
خرمن ظلم کو اب آگ لگا دے کوئی
چاند تاروں کے چراغوں کو بجھا دے کوئی
آسمانوں کو زمینوں پہ جھکا دے کوئی
جا کے گاندھیؔ کہ یہ سب حال سنا دے کوئی
ظلم ڈھاتے ہیں اہنسا کے پجاری کیا کیا