فریادات

فاصلے کی تو خیر بات ہے اور
حیدرآباد دل سے دور نہیں


دلی میں یوں زبان پہ آئی دکن کی بات
صحرا میں چھیڑ دیوے کوئی جیسے چمن کی بات


بزم خرد میں چھڑ تو گئی ہے دکن کی بات
اب عشق لے کے آئے گا دار و رسن کی بات


اک حسن دکن تھا جو نگاہوں سے نہ چھوٹا
ہر حسن کو ورنہ بخدا چھوڑ گئے ہم


آزادؔ ایک پل بھی نہ دل کو سکوں ملا
رستے میں دکن بھی تھا کہیں لکھنؤ کے بعد


آزادؔ پھر دکن کا سمندر ہے روبرو
لے جا دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر