یوریشیائی جیو پالیٹکس میں روس کا احیا

مابعد سرد جنگ کے آغاز میں روس مغرب کے دباؤ میں تھا اور اس کا عالمی اور علاقائی امور کا ایجنڈا طے کرنے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ پیوٹن  کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال بدلنا شروع ہوئی۔ کچھ معاشی طاقت اور علاقائی استحکام حاصل کرنے کے بعد روس نے علاقائی اور عالمی سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس کروانا شروع کیا۔ افغانستان میں اگرچہ روس امریکی جنگ کی حمایت کرتا ہے، تاہم اس نے شام میں امریکی پالیسی کی مخالفت کی، یہاں تک کہ بشارالاسد کی حمایت میں عسکری طاقت کا بھی استعمال کیا۔ روس مشرق وسطی و شمالی افریقہ (Middle East and North Africa, MENA) میں اپنی پوزیشن کو اسی طرح بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے جیسی کہ سوویت روس کے زمانے میں تھی۔

متحدہ سوویت وفاق کے زمانے میں MENAخطے سیاسی صورت حال کو اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اپنی دو میقاتوں میں پیوٹن  نے 25 مرتبہ عرب لیڈروں کو اپنے یہاں بلایا، جو اوباما دور میں عرب وفود کے دوروں سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ سعودی عرب امریکہ اور مغرب کا قریبی حلیف رہا ہے لیکن اب روس اور سعودی عرب بعض امور پر قریب تر ہورہے ہیں خصوصاً تیل اور گیس کے امور پر۔ حال ہی میں دونوں ممالک کی طرف سے طے پائے چند توانائی کے معاہدے اس بات کے غماز ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی توانائی کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق جس طرح روس شام میں ایک مضبوط حریف کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا ہے، اس سے سعودی عرب مرعوب ہوا ہے۔ اور اب سعودی عرب روس، امریکہ اور مغرب کے ساتھ ایسے متوازن تعلقات چاہتا ہے جو یک رخے نہ ہوں۔

روس ترکی سے بھی اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے جو ایک اہم نیٹو (NATO)اتحادی ملک ہے۔ اپنی نئی پالیسی کے طور پرروس مشرق وسطی کو ہمسایہ بیرون (near abroad) قرار دیتا ہے۔ ماضی قریب میں ترکی و روس کے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات سے امریکہ اور نیٹو ناخوش ہوئے تھے۔ لیکن ترکی جس طرح آزادانہ طور پر روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے وہ بین الاقوامی سیاست میں روسی طاقت کے ابھرنے کا عکاس ہے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ روس کے لیے ترکی نیٹو کو چھوڑ سکتا ہے یا نیٹو ترکی کو معطل کرسکتا ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ ترکی اور روس کے تعلقات مستقبل میں مزید بہتر ہوں گے۔

روسی جیوپولیٹکل حکمت عملی کا حیرت انگیز عنصر یہ ہے کہ روس پاکستان تعلقات تیزی سے استوار ہوئے ہیں۔ اگرچہ ماضی قریب میں پاکستان امریکہ کا قریبی حلیف رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں وہ روس کے بہت قریب آیا ہے اور متعدد عسکری معاہدے، ہتھیاروں کے سودے، خفیہ معلومات اطلاعات کے تبادلے کے معاہدے، مشترکہ عسکری مشقیں اور سب سے اہم روس میں پاکستان کی عسکری تربیت معاہدے کے معاہدے طے پائے ہیں۔ یہ متعدد اسٹریٹجک تعاملات روس کی جنوبی اور وسطی ایشیا میں طویل مدتی اسٹریٹجک وژن کی نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

روس صرف عسکری تعلقات ہی قائم نہیں کر رہا ہے بلکہ فولاد کی ملوں اور پائپ لائنوں کے منصوبوں میں بھی دل چسپی دکھا رہا ہے۔ روس گوادر میں چین پاک اقتصادی راہ داری (CPEC) منصوبے میں شامل ہے جس کی رسائی اسے بحیرہ عرب کے ذریعے حاصل ہوگی، یہ روس کا صد سالہ خواب تھا۔[15] روس افغانستان میں بھی اپنی دل چسپی بڑھا رہا ہے جہاں امریکہ 17 سال سے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے طالبان سے لڑ رہا ہے۔

ایک وقت تھا جب روس نے افغانستان پر امریکی جارحیت کی حمایت کی تھی، لیکن اب حیرت کی بات یہ ہے کہ روس افغانستان کا بحران سلجھانے کے لیے افغان –امریکی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ روس نے پہلی بار 2017 میں طالبان سے تبادلہ خیال کے لیے رابطہ کیا تھا جس میں اس نے افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ کے مسئلے پر گفتگو کی تھی۔ لیکن اب اس سے آگے بڑھ کر وہ افغان بحران حل کرنے کے لیے امریکہ کو نظرانداز کرتے ہوئے افغانستان، ایران اور پاکستان کا علاقائی اتحاد بنانے پر زور دے رہا ہے۔ روس پہلے ہی سے وسطی ایشیا میں فعال ہے اور اب افغانستان اور پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک نوعیت کی شراکت داری سے یوریشیائی جیوپولیٹکس کا پلڑا روس کے حق میں بھاری ہوجائے گا۔

روس مشرقی ہارٹ لینڈ اور رم لینڈ (rimland) کے کچھ حصوں پر اپنی حیثیت بحال کررہا ہے، تاہم اسے مشرقی یوروپ میں نیٹو کی توسیع کی وجہ سے سخت چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ سے روسی سرحد اور طاقت ور وسطی یوروپ یا نیٹو کے مابین بفر زون (buffer) ہے۔ اگرچہ بالٹک ممالک نیٹو کے رکن ہیں تاہم روس اپنی سرحد سے نیٹو کو دور رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، خصوصاً یوکرین اور جارجیا کو نیٹو میں عدم شمولیت پر قائل کرنے کے لیے پورا زور صرف کر رہا ہے، کیوں کہ یوکرین وسیع جغرافیائی رقبے اور آبادی والا سب سے بڑا مشرقی یوروپی ملک ہے، اور جارجیا بحیرہ اسود میں روس کے جنوب واقع ہے جہاں سے یہ قفقاز اور وسطی ایشیا پر اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر نیٹو یوکرین اور جارجیا میں عسکری اڈے قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو جیوپولیٹکل اعتبار سے یوروپ میں نیٹو کو روس پر فوقیت حاصل ہوجائے گی اور اسے مشرقی ہارٹ لینڈ پر بلاشرکت غیرے غلبہ حاصل رہے گا۔ چنانچہ روس کی کوشش رہے گی کہ کسی بھی طرح یوکرین اور جارجیا کو نیٹو کی رکنیت سے باز رکھے۔

روس چین کے ساتھ بھی اسٹریٹجک اور معاشی تعلقات قائم کر رہا ہے۔ ماضی قریب میں روس اور چین نے بہت سے عسکری اور اقتصادی شراکت کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں توانائی کے بڑے سودے بھی شامل ہیں۔ دونوں ملکوں نے مشترکہ عسکری مشقیں بھی منعقد کیں۔ روس چین کی سربراہی والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)۔کا بھی رکن ہے۔ چین، پاکستان (جنوبی ایشیا)، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ مل کر روس ہارٹ لینڈ کے مشرقی گوشے میں اپنی حیثیت کو مضبوط بنا رہا ہے۔ اب ہارٹ لینڈ کے مغربی گوشے یعنی مشرقی یوروپ پر توجہ مرکوز کرکے روس رِم لینڈ اور شمالی افریقہ (جو توسیع کردہ رم لینڈ ہے) کی جانب پیش رفت کرسکتا ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ:عرفان وحید)

متعلقہ عنوانات