اعتبار

’’۴۰۸ نمبر کوارٹر میں تم آئے ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’تم بھی عجیب ہو یار۔ تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تم اس کوارٹر میں آئے ہو۔‘‘
’’مجھے یہ نہیں معلوم تھاکہ یہاں آنے کے بعد اس کی اطلاع آپ کو دینی لازمی ہوگی۔‘‘
’’ارے یار تم تو برا مان گئے۔ دراصل میں بھی اسی فلور پر ۴۰۵ نمبر میں رہتا ہوں۔ آج اچانک تمہارے نیم پلیٹ پر نظرپڑی تو پوچھ لیا۔‘‘
’’واقعی۔۔۔؟ یہ جانکاری مجھے نہیں تھی کہ تم بھی وہیں رہتے ہو۔‘‘
حالاں کہ شکلا کے اس طرح استفسار کرنے پر میں اندر ہی اندر بھنا گیا تھا، لیکن یہ جاننے کے بعد کہ اسی فلور پر وہ بھی رہتاہے قدرے راحت کا احساس ہوا۔
دراصل پٹنہ میں پوسٹنگ ہو تو سب سے بڑا مسئلہ رہنے کا ہی ہوتاہے۔ کسی بھی محلّے میں رہیے اگر قاعدے کا گھر چاہیے تو دوتین ہزار سے کم میں کوئی بہتر مکان نہیں ملتا۔ ایسی حالت میں اگر کوئی سرکاری فلیٹ مل جائے اور پڑوس میں آپ کے ہی محکمے کا دوسرا آفیسر رہتا ہو تو یہ اطمینان تو رہتا ہی ہے کہ چلو کوئی تو ہے پہچان والا، ورنہ عہدے کے اعتبار سے جو جتنی بلندی پر ہوتاہے پڑوسی کے اعتبار سے وہ اتنی ہی پستی میں نظر آتاہے۔
اس فلیٹ کے بارے میں، جہاں میں رہنے آیاتھا یہ عام تاثر تھاکہ پڑوسی کو پڑوسی سے کوئی مطلب نہیں رہتا۔ ہر آدمی باون گز ہوتاہے، اس لیے اپنے ہی خول میں رہنا پسند کرتاہے، اس لیے جب شکلا نے یہ بتایاکہ وہ میرا فلور پڑوسی ہے تو مجھے بے حد اطمینان ہوا۔
’’سنو۔ آج رات کا کھانا تم سب میرے ساتھ ہی کھاؤگے۔ میں مدھو کو فون کردیتا ہوں۔‘‘
’’کیا اس فلیٹ کی روایت یہی ہے؟‘‘ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا۔
’’نہیں یار۔ آج ہی یہاں آئے ہو۔ بھابھی بھی تھکی ہوں گی۔ کل سے اپنا کھاؤ۔ آج ساتھ ہی کھائیں گے۔‘‘
مجھے اس کی یہ ادا بہت اچھی لگی۔ دراصل ہم دونوں بیچ میٹ بھی تھے۔ ایک ساتھ کبھی رہنے کا اتفاق نہیں ہوا، اس لیے ہمارا رشتہ صرف صاحب سلامت تک محدود تھا۔
گھر آکر میں نے بیگم سے بتایا:
’’کھانا مت بنانا۔ شکلا نے سب کی دعوت کی ہے۔‘‘
’’کون شکلا؟‘‘
’’میرا کلیگ ہے۔ ونے کمار شکلا۔ ۴۰۵ میں رہتا ہے۔‘‘
اسے بھی حیرت بھری خوشی ہوئی۔
’’چلیے اچھا ہے۔ اس فلورپر کوئی جان پہچان والاتو نکلا۔‘‘
اسی رات اس کے گھر کے دیگر افراد سے ملاقات ہوئی۔ ایک شفیق ماں، ایک حسین سی بیوی اور ایک پیارا سا لڑکا۔ بس یہی کل کائنات تھی شکلا کی۔ ہلکی دوستی تھی ہی، اس روز کے بعد سے یہ رشتہ اور مضبوط ہوگیا۔
وہاں آنے کے بعد دیگر دوست بھی ملے جو بغل کے بلاک میں رہتے تھے۔ رام نرائن پانڈے سی بلاک میں اور بی. این. لال جی، بی بلاک میں رہتے تھے، پھر کچھ روز بعد میرے ہی فلورپر ۴۱۰ میں بھوشن بھی آگیا۔ اس طرح ایک ہی محکمہ کے کئی لوگ آس پاس رہنے لگے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بھی بننے لگے۔
فروری کا مہینہ آیا۔ بل بنانے والے کلرک اندو نے اطلاع دی:
’’سر اس بار آپ کو سات ہزار زائد انکم ٹیکس بھرنا ہوگا۔‘‘
’’اتنی رقم کاٹ لوگے تو بچے گا کیا؟‘‘
’’کوئی دوسری صورت بھی نہیں ہے سر۔ آپ این۔ایس۔سی کیوں نہیں لے لیتے۔‘‘
’’رقم ہو تو لوں۔ خیر تم کچھ روز رُکنا۔ ایک دو دن میں کوئی نہ کوئی صورت نکال لوں گا۔‘‘
شام گھر آیا تو شکلا سے ذکر کیا۔ اس نے بھی کہا:
’’اس لاسٹ موومنٹ میں این۔ایس۔سی کے علاوہ دوسری صورت بھی نہیں ہے، ورنہ اس سے بہتر ایل۔آئی۔سی ہوتا۔‘‘
’’لیکن یار! فی الحال ٹیکس کی یہ رقم بچانے کے لیے پانچ سات ہزار کا این۔ایس۔سی لینا ہوگا اور اتنی رقم کی گنجایش میرے لیے مشکل ہے۔‘‘
’’ارے میاں جی اور بچے پیدا کرو۔ اس طرح پانچ بچے رکھوگے تو یہی حال ہوگا اور اس پر سے ایمان داری کا ڈھونگ بھی رچاؤگے تو پھر رقم کیسے بچ پائے گی۔‘‘
’’اس معاملے میں بچوں کو کیوں گھسیٹ رہے ہو۔ ٹیکس سے ان کا کیا تعلق؟‘‘
’’تعلق کیسے نہیں ہے؟ میری طرح اگر صرف ایک بچہ ہوتا تو رقم بچا سکتے تھے، لیکن تم لوگ تو میاں جی کی آبادی بڑھانے کے چکر میں صرف بچے پیدا کرنے پر زور دیتے ہو۔‘‘
پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا:
’’کتنا ہی بچہ پیدا کرلو لیکن ہم لوگوں کی آبادی سے نہیں بڑھ سکتے۔‘‘
مجھے بہت غصہ آیا۔ بات تھی کہاں کی اور لے اُڑا کہاں۔ میں نے پوری سنجیدگی سے کہا:
’’یہ ہندو مسلم آبادی کا چکّر چھوڑو۔ فی الحال میرا مسئلہ کچھ اور ہے۔‘‘
’’ارے یہ تو مذاق کررہے تھے۔ گھبراتے کیوں ہو ،کچھ نہ کچھ اُپائے ہوہی جائے گا۔‘‘
دوسری صبح اس کے لڑکے نے آکر کہا:
’’انکل! ڈیڈی چائے پینے بلا رہے ہیں۔‘‘
میں پہنچا۔ چائے پی، پھر اس نے ایک لفاف میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’یہ رقم رکھ لو۔ آج ہی این۔ایس۔سی خریدلو ۔ اِندو کو رقم دے دینا، اس کا بھائی ایجنٹ ہے سب کروا دے گا۔‘‘
میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میں کچھ بولتا اس سے قبل ہی اس نے کہا:
’’سنو۔ اس میں ایک ہزار ماں سے لے کر دیاہے۔ یہ آئندہ ماہ ہی لوٹا دینا۔ بقیہ جب سُوِی دھا ہو واپس کردینا۔‘‘
میں سوچنے لگا۔ یہ شخص کس خانے میں فٹ ہونے لائق ہے؟ بات بات میں میاں جی کہہ کر میرا مذاق بھی اڑاتاہے اور آڑے وقت بڑھ کر کام بھی آتاہے۔
اسی دوران دفتر کی ایک بے حد خوب صورت لیڈی کلیگ کو لے کر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوگیا۔
’’دیکھو میاں جی یہ بات اچھی نہیں ہے۔ تم خواہ مخواہ ہرجگہ مجھے بدنام کررہے ہو۔‘‘
میں نے اسے لاکھ سمجھایاکہ بھائی میں اس لائن کا آدمی نہیں ہوں، اس لیے مجھ سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کے دل میں گانٹھ کی طرح جو بات بیٹھ گئی، سوبیٹھ گئی۔ لاکھ کوشش کے باوجود میں اس کا دل صاف نہیں کرسکا لیکن جب اس خوب صورت کلیگ کا ٹرانسفر ہوگیا تو اس کو رد کروانے کے لیے اس نے میری ہی مدد لی۔
اسی دوران بلیک دسمبر نے پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ ہرجگہ ایک ہی چرچا۔ گفتگو کا ایک ہی مرکز۔ مجھ جیسے لوگ ہرجگہ خائف کہ کب کیا ہوگا؟
بہت سے ہوشیار لوگوں نے مجھ سے کہا بھی:
’’آپ فی الحال اس فلیٹ سے کہیں اور منتقل ہوجائیں۔ جب سارا معاملہ شانت ہوجائے تو آجائیے گا۔‘‘
لیکن میں نہیں مانا، کیوں کہ مجھے یہ فکر ستارہی تھی کہ واپسی پر جب پڑوسی لوگ پوچھیں گے کہ کہاں اور کیوں گئے تھے تو شاید میں بہت آسانی سے جواب نہیں دے پاؤں گا۔ یہی سب سوچ کر نرغے میں کوفیوں کے اکیلا حسین رہ گیا۔
میں نے شکلا سے بھی اپنے خدشات کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے وہی پرانے انداز میں کہا:
’’ارے یار! یہیں رہو۔ اگر کہیں کچھ ہوگیا تو کوئی تو میاں جی پاس رہے تاکہ ہاتھ صاف کرنے میں آسانی ہو۔‘‘
نہ جانے کیوں اس بار اس کی ہنسی بہت زہریلی لگی۔
’’تم جتنی آسانی سے کہہ رہے ہو اتنی آسانی سے مجھے صاف کرسکوگے؟‘‘
میرے پوچھنے پر اس نے کہا:
’’ارے میاں جی۔ وقت آنے پر ٹرائے کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
پھر اس نے ۴۰۶ کے لال صاحب سے کہا:
’’لال صاحب دیکھئے۔ اس میاں جی کو بچاکر رکھا ہے تاکہ وقت آنے پر ہاتھ صاف کیا جاسکے۔‘‘
لال صاحب نظر بچاکر جلدی سے اندر چلے گئے اور شکلا ہنستا ہوا بولا:
’’چل چائے پلا۔ اتنی دیر سے گیٹ کے باہر ہی کھڑا ہم لوگوں کو ٹہلا رہاہے۔‘‘
ان دنوں آفس میں بھی ماحول بہت ٹینس رہنے لگا تھا۔ سارے لوگ اندر ہی اندر اپنے طورسے سلگ رہے تھے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں سے پولیس فائرنگ کی خبریں آرہی تھیں۔ کوئی کسی سے کھل کر بات نہیں کررہا تھا۔ سب اوپر سے شانت نظر آرہے تھے، لیکن ان کے اندر کی بے چینی ان کی آنکھوں سے ظاہر ہوجارہی تھی۔ سوائے شکلا کے سب کے چہرے سے تناؤ جھلکتا محسوس ہوتا تھا۔
اس ماحول میں بھی شکلا اپنی لن ترانی سے باز نہیں آتا:
’’میاں جی۔ اب ڈھانچہ بھی گیا۔ اب تو مندر ہی بنے گا وہاں۔‘‘
’’ضرور بناؤ پیارے۔ مجھے اس سے کیا۔‘‘ میں چڑھ گیا۔
’’مطلب کیسے نہیں۔ یہ شاہی امام اور وہ میاں جی ایم پی تو بار بار مسجد کے لیے جہاد کرنے کہتاہے۔ ارے میاں جی۔ جو ہونا تھا و ہ ہوگیا۔ بابر گیا۔ معاملہ ختم۔ لیکن تم لوگ مانوتب نا۔‘‘
’’اس مسئلہ کو چھوڑ کر تم دوسری بات نہیں کرسکتے؟‘‘
’’دوسری بات کیسے کروں؟ ان دنوں جسے دیکھو وہ یا تو مندر بنا رہاہے یا پھر اسی جگہ مسجد بنانے کی بات کررہا ہے، لیکن یار! تم میاں جی لوگ سیدھے سادے ہم لوگوں کا ادھیکار مان کیوں نہیں لیتے؟‘‘
میں بحث میں اُلجھ کر مزید ذہنی تناؤ مول نہیں لینا چاہتاتھا اس لیے وہاں سے کھسک آیا۔ کچھ مسلم اسٹاف نے کہا بھی:
’’سر آپ شکلاجی سے کیوں لگتے ہیں، وہ بہت منھ پھٹ ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے ہی بولے چلے جاتے ہیں۔‘‘ کوئی کہتا:
’’ارے وہ بے وقوف نہیں ہیں۔ خوب سمجھتے ہیں سب۔ آپ کی غلط فہمی ہے یہ۔ دراصل شکلاجی جان بوجھ کر مسلمانوں کو چڑھانے کے لیے یہ سب کہتے ہیں۔‘‘
اب جو بھی ہو۔ میں بس یہی سوچ رہا تھاکہ کسی طرح یہ طوفان تھم جائے۔ ایک ویران گھر کے لیے کتنے آباد گھر ویران ہوگئے۔ اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ ہرشخص اپنی بات منوانے کے لیے دوسرے کی گردن تک کٹوانے پر تلا ہے۔
یہ طوفان جس کی زد میں سارا ملک ہی آگیا تھا اب قدرے پُرسکون ہونے لگاتھا اور دفتر کے اندر کے تناؤ میں بھی اب نمایاں طورپر ڈھیلاپن محسوس ہونے لگا تھا۔
ایک دن شکلاجی نے پوری سنجیدگی سے کہا:
’’یار کچھ بھی ہو، مندر تو وہیں بننا چاہیے۔‘‘
’’آخر کیوں؟ وہیں کیوں؟ کہیں اور کیوں نہیں؟‘‘ میں بھی تن گیا۔ اس نے بہت اطمینان سے کہا:
’’یار تم سمجھ نہیں رہے ہو۔ میں دھارمک ضرور ہوں، لیکن چندہ وہ بھی دھرم کے نام پر بہت کم دیتا ہوں، لیکن مندر وہیں بنانے کے لیے میں نے بھی ۵۰۱ روپے چندہ دیاہے۔‘‘
پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’اب تم ہی بتاؤ۔ اگر مندر وہاں نہیں بنا تو میرا روپیہ برباد ہی ہوگا نا؟‘‘
’’یار شکلا! تم کم از کم مجھ سے اس قسم کی باتیں مت کیا کرو۔ تم خواہ مخواہ ہروقت تناؤپھیلاتے ہو۔‘‘
وہ ہنس دیا۔
’’ارے یار۔ میں تو مذاق کررہا تھا۔ بُرا مان گئے؟‘‘
یہ اس کی عادت تھی۔ ایک سے ایک زہریلی باتیں کرتا۔ نہ جانے کہاں کہاں سے وہ ایک سے ایک خبریں لاتا اور سب کو اتنے سکون سے سناتا گویا وہ چشم دید گواہ ہو۔
کچھ کلیگ جو اس کی عادت سے واقف تھے، وہ تو ہنس کر ٹال دیتے، لیکن چھوٹے اسٹاف صاحب کی بات اَن سنی کرنے کی جرأت نہ کرتے اور پھر ایک کان سے دوسرے کان تک بے سر پیر کی باتیں پھیل جاتیں۔
اسی دوران کچھ باتوں کو لے کر اس کے دل میں میرے لیے کچھ اور غلط فہمی گھر کرگئی اور ہمارا رشتہ قائم رہتے ہوئے بھی دائم نہیں رہ سکا۔ میں نے مصلحتاً اس کے یہاں آناجانا کم کردیا کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھاکہ رشتے میں جو تناؤ قائم ہے اس میں مزید اضافہ ہو، لیکن دعا سلام کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوا۔
ایک شام وہ میرے یہاں آیا۔
’’ارے میاں جی۔ ذرا اپنا ٹسٹر لے کر میرے یہاں آؤ تو۔ بالکونی کے گریل میں بجلی آرہی ہے۔‘‘
’’تم خود کیوں نہیں دیکھ لیتے؟‘‘
’’مجھے بجلی سے بہت ڈر لگتاہے۔ اگر کچھ ہو گیا تو؟‘‘
’’اگر وہی کچھ میرے ساتھ ہوگیا تو؟‘‘
وہ ہنستا ہوا بولا:
’’تو کیا ہوگا؟ ایک میاں جی خرچ ہوجائے گا بس۔‘‘
میں کیا جواب دیتا۔ جاکر اس کی پریشانی دور کرنی پڑی اور سزا کے طورپر اس کے ساتھ چائے بھی پینا پڑی۔
انھیں دنوں میرے بغل کا کوارٹر کسی دوسرے محکمے کے محمدحسین احمد الاٹ ہوگیا اور شکلا باضابطہ اعلان کردیاکہ اب تو چوتھا فلور پاکستان ہی ہوگیا ہے۔ ایک دن احمد نے کہا۔
’’یہ شکلا عجیب قسم کا ہے۔ اس کو اپنی زبان پر قابو نہیں ہے۔ آج مجھ سے گفتگو کے دوران وہ۔۔۔‘‘
’’اس کی بات پر مت جاؤ۔‘‘ میں نے اس کی بات درمیان سے ہی اُچک لی۔ پھربولا:
’’وہ اوپر سے بُرا لگتا ہے لیکن اندر کا بھلا آدمی ہے۔‘‘
’’تم مجھ سے زیادہ آدمی پہچانتے ہو؟‘‘ احمد مجھ پر برس پڑا۔
’’میں ہندوؤں کے درمیان جتنا رہا ہوں تم کو اتنا تجربہ نہیں ہے۔‘‘
’’میں تمہاری بات سے کب انکار کرتا ہوں لیکن شکلا۔۔۔‘‘
اس نے میری بات کاٹ دی۔
’’پکّا بی.جے.پی کا ووٹر ہے۔ یہ نوٹ کر لو۔ کبھی نہ کبھی داؤ مار دے گا۔‘‘
میں صرف مسکرا کر رہ گیا۔
ایک دن شکلا نے مجھے احمد کے یہاں چائے پیتے دیکھ لیا۔
’’کیوں میاں جی۔ صرف میاں جی کی ہی چائے پیوگے؟ جہاں دو میاں جی مل جائیں وہاں صرف پاکستان کی ہی بات ہوگی۔‘‘
’’دیکھو شکلا۔ تم یہ سب خرافات میرے سامنے مت بکو۔ میں بہت نیشنل قسم کا آدمی ہوں بلکہ تم سے زیادہ ہوں، اس لیے نیشنلٹی پر بھاشن نہ دو۔‘‘
میرے بولنے سے قبل ہی احمد گرم ہوگیا۔
’’بُرا مان گئے یار؟ میں تو مذاق کررہا تھا۔‘‘
اس نے اپنا وہی پرانا جملہ دُہرایا جس کی ضرورت اب میرے لیے کم از کم نہیں رہ گئی تھی۔
اگست کا مہینہ تھا۔ گھر سے چھوٹے بھائی نے فون کیا۔
’’بھیا! سعودی کا ویزا مل گیاہے۔ ۱۱؍اگست کو فلائٹ ہے۔ چار پانچ ہزار کا انتظام کردیجیے۔‘‘
’’آجاؤ۔ ہوجائے گا۔‘‘
میں نے یقین تو دلا دیا، لیکن اتنی رقم کا انتظام دوچار دن میں کرنا میرے لیے مشکل تھا۔ احمد کے یہاں بہت کڑکی رہتی تھی۔ شکلا سے کہنے کی ہمت نہیں تھی کیوں کہ لگتا تھاکہ وہ اب شاید ہی مدد کرے۔ بیگم نے کہا۔
’’دیکھیے۔ ٹرائے کرنے میں کیا حرج ہے؟ وقت کم ہے اور ضرورت شدید۔‘‘
میں نے ہمت کرکے دل کی بات کہہ دی۔ شکلا نے جواب دیا:
’’یار ان دنوں ہاتھ خالی ہے۔ پچھلے مہینے ہی بائیک خرید لیاہے۔ ماں کو آنے دو ان کے پاس ہوگا تو انتظام ہوجائے گا۔‘‘
میں نے بیگم پر غصہ اُتارا۔
’’تم نے خواہ مخواہ مجھے ذلیل کروا دیا۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ اب شکلا وہ شکلا نہیں ہے۔ تمھیں کیا پتہ کہ درمیان سے کتنا پانی گزر چکاہے۔‘‘
’’دوسری صورت بھی تو نہیں تھی۔ دیکھئے اب صرف دو دن باقی ہے۔ کوئی نہ کوئی نظم ہوہی جائے گا۔ ویسے شکلا بھائی نے پوری طرح انکار تھوڑے ہی کیاہے؟‘‘
دوسرے دن بھائی گھر سے آگیا۔ کل رات بمبئی روانگی ہے۔ میں نے بڑے لڑکے کو بھیجا۔
’’بیٹا۔ شکلا انکل سے کہناکہ چھوٹے انکل بمبئی جانے کے لیے آگئے ہیں۔ ابونے جو کہا تھا اس کا انتظام ہوا؟‘‘
میں نے بیٹے کو تفصیل نہ بتاکر گول مول بات بتائی۔ اس نے آکر بتایا۔
’’شکلا انکل نے کہا ہے کچھ نہیں ہوسکا۔ ماں دیدی کے یہاں سے ابھی تک واپس نہیں آئی ہے۔‘‘
میں نے بیگم سے کہا:
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’گھبراتے کیوں ہو۔ اﷲ کوئی نہ کوئی انتظام کرہی دے گا۔‘‘
جب سارے دروازے بند ہوجائیں تو بس یہی ایک دروازہ کھلا رہ جاتاہے اور میری بیگم کو اس دروازے کے کھلا رہنے کا ہمیشہ سے یقین رہاہے۔‘‘
گھنٹہ بھر بعد مدھو بھابھی نے آکر بتایا۔
’’بھائی صاحب آپ کا فون آیا ہے۔‘‘
’’میرا فون؟ کون ہے بھائی۔ اس نے سیدھے میرے یہاں رِنگ نہ کرکے آپ کے یہاں کیوں کیا؟‘‘
وہ چپ رہیں اور میں شکلا کے فون والے کمرے کی جانب لپکا۔
’’اُدھر نہیں میاں جی۔ اِدھر آؤ۔‘‘
’’لیکن فون تو۔۔۔‘‘ اس نے میری بات کاٹ دی۔
’’فون وون نہیں آیاہے پیارے! میں نے بلایا ہے۔‘‘ پھر میری طرف ایک لفاف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ان دنوں میرا بھی ہاتھ بہت تنگ چل رہاہے۔ ماں ہے نہیں۔ کسی طرح اتنے ہی کا انتظام ہوپایاہے۔ رکھ لو اور باقی کا انتظام کرلو۔‘‘
میں نے رقم رکھ لی اور بعد میں یہ معلوم ہواکہ اس نے خود دوسرے سے قرض لے کر یہ رقم مجھے مہیا کرائی تھی۔
ایک دن میں نے رام نرائن سے پوچھا:
’’یار یہ شکلا کیسا آدمی ہے؟‘‘
’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’یار یہ آدمی میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
’’میری سمجھ میں ہی کب آیاہے۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھا پھر بتایا:
’’ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ باہر سے جیسا دِکھتا ہے اندر سے ویسا نہیں ہے۔‘‘
میرا بھی خیال یہی تھا۔ وہ اندر باہر ایک نہیں تھا۔ ہاں بہت سے سمجھ دار کلیگ اسے بے وقوف ضرور کہتے تھے کیوں کہ جو باتیں وہ دل سے سوچا کرتے تھے شکلا اس کا برملا اظہار کرکے ان کے نزدیک بے وقوف کہلاتاتھا۔
کچھ روز قبل ہی میں نے ۴۰۸ نمبر کوارٹر چھوڑ دیا۔ اس خبر پر شکلا نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:
’’چلو اچھا ہوا۔ پاکستان کا بٹوارہ ہوگیا۔‘‘
لیکن میرے دوسرے کوارٹر میں سب سے پہلے خیریت دریافت کرنے بھی وہی آیا۔
’’بھابھی جی کیسی ہیں؟ دیکھو نا مدھو بھی ساتھ آرہی تھی، لیکن اسے اچانک ماں کے ساتھ دیدی کے یہاں جانا پڑا۔ چھٹھ کی تیاری ہورہی ہے نا اسی لیے۔‘‘
پھر اس نے بہت ساری باتیں کہیں، لیکن ایک بار بھی میاں جی نہیں کہا۔ مجھے اس کی زبان سے میاں جی سننے کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ اس دن حیرت ہوئی۔ پھر اس نے تعریفی انداز میں کہا:
’’تمہارے لیے یہ کوارٹر بہت اچھا ہے۔ بڑے کوارٹر کی ضرورت بھی تھی۔ بچوں کو بھی اب پڑھائی میں آسانی ہوگی اور تمہارے یہاں تو گیسٹ بھی بہت آتے رہتے ہیں۔‘‘
پھر اس نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’یار۔ یہ میاں جی کے یہاں اتنے گیسٹ کیوں آتے ہیں؟ احمد کے یہاں جب دیکھو گیسٹ بھرے رہتے ہیں۔‘‘
میاں جی کہہ کر اس نے میرے دل کے اندر سے وہ پھانس نکال دی جو تھوڑی دیر قبل اس کی شائستہ گفتگو سے دل میں اٹک گئی تھی۔
پھر اچانک وہ ہوگیا جس کا گمان بھی نہیں گزرا تھا۔
بیگم کو ولادت ہونے والی تھی۔ سب نارمل تھا۔ کبھی کوئی پرابلم نہیں ہوا۔ مدھوبھابھی نے کہا بھی تھا۔
’’آپ کو ڈلیوری میں کبھی کوئی پرابلم نہیں ہوا اس لیے اس بار بھی نارمل ہی ہوگا۔ اچھا کیا کرجی اسپتال میں بھی دِکھوا لیا۔ پھربھی اگر ضرورت ہوئی تو مجھے بلا لیجیے گا۔‘‘ یہی بات احمد کی بیگم بھی کئی بار کہہ چکی تھیں لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
چھٹھ کا دن ہے۔ دن بھر لاؤڈ اسپیکر کی آواز ندی کنارے سے آتی رہی ہے۔ دوپہر بعد سے ہی لوگ گنگا کے کنارے شام کے چھٹھ کے لیے جانے لگے ہیں۔ سورج بھی اپنے شردھالوؤں کی عقیدت دیکھ کر چپکے سے گنگا میں اُتر آیاہے۔ اس کی کرنیں گلابی ہوگئی ہیں۔ سارے لوگ ان گلابی کرنوں سے شرابور ہورہے ہیں۔ لوگوں کی واپسی جاری ہے۔ کل صبح کی تیاری کے لیے سب شام تک واپس ہورہے ہیں۔
رات کا آٹھ بجاہے۔ اچانک بیگم کی حالت بگڑنے لگی ہے۔ میں انھیں لے کر کرجی اسپتال بھاگتا ہوں۔ بالکل تنہا۔ مدد کے لیے کوئی نہیں۔ اسپتال جاتے جاتے حالت اور دگرگوں ہوگئی ہے۔
ایمرجنسی کی لال بتی جل رہی ہے۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر نے فرمان جاری کیا:
’’جسم کا خون نکلا جارہاہے۔ فوری طورپر خون کا انتظام کیجیے۔‘‘
میں نروس ہوگیا۔ بیگم کا خون بی.پوزیٹو تھا اور میرا اے.پوزیٹو۔ میں چاہ کر بھی اپنے جسم کا ایک قطرہ خون بھی نہیں دے سکتا۔
’’یا اﷲ! اس مصیبت کی گھڑی میں کون مدد کرے گا؟‘‘
’’گھبراتے کیوں ہیں۔ اﷲ سب انتظام کردے گا۔‘‘
بیگم کی آواز کان میں آتی ہے، لیکن وہ تو موت و زیست کے درمیان جھولا جھول رہی ہے۔ اتنے میں نرس دوڑی آتی ہے۔
’’خون کا فوری انتظام کیجیے۔ آپریشن کرنا ہوگا۔ بچے کی بیٹنگ کم ہوتی جارہی ہے۔‘‘
رات کا ساڑھے نو بج رہاہے۔ کسے فون کروں؟ اچانک خیال آیا۔
شکلا نو بجے سو جانے والا آدمی ہے۔ وہ ضرور گھر پر ہوگا اور اس کا گروپ بھی شاید بی.پوزیٹو ہی ہے۔ میں اسے فون کرتا ہوں۔
’’یار بہت مصیبت میں ہوں۔ کرجی سے بول رہا ہوں۔ بیگم کو خون کی شدید ضرورت ہے۔‘‘
’’گھبراؤ نہیں میں آرہا ہوں۔‘‘
پندرہ منٹ کے اندر وہ مدھو بھابھی کے ساتھ حاضر تھا۔ مجھے بہت سکون ملاکہ چلو کوئی تو مدد کو آیاہے۔ میں مدھو بھابھی سے کہتا ہوں:
’’بھابھی آپ اندر جاکر اسے تسلی دیجیے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ڈونر آجانے کے بعد بیگم کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیاہے۔ اتنے میں ایک تین سال کی بچی خون میں لت پت ایمرجنسی میں لائی گئی ہے۔ اس کے منھ سے بار بار خون کی قے ہورہی ہے۔ میں اس کی حالت دیکھ کر اپنا دُکھ بھول گیا ہوں۔ لڑکی کے باپ کوئی کھیتان صاحب ہیں اور بتا رہے ہیں کہ بچی نے پانی کا بوتل سمجھ کر باتھ روم صاف کرنے والا ایسڈ پی لیاہے۔ ڈاکٹر فوری طورپر اسے خون چڑھانے کی بات کرتے ہیں۔ بچی کا گروپ اے.پوزیٹو ہے۔ اس کی ماں کا گروپ بھی وہی ہے۔ ماں کو اندر لے جاتے ہوئے ڈاکٹر دوسرے ڈونر کو لانے کی بات کررہے ہیں۔ میں بڑھ کر خود کو پیش کردیتا ہوں۔
’’ڈاکٹر میرا خون اے. پوزیٹو ہے۔ اس بچی کے لیے آپ جتنا چاہیں لے سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اور نرس کے ساتھ بچی کے والدین بھی حیرت سے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ نرس کو شاید حیرت اس لیے بھی ہے کہ میرے اپنے مریض کی حالت دگرگوں ہے اور میری ساری توجہ بچی پر مرکوز ہوگئی ہے۔
ادھر شکلا کا خون اُوپر آپریشن تھیٹر جارہا ہے اور میرا خون اس بچی کے جسم میں داخل ہورہاہے جس سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے اور شاید اس کے بعد بھی کوئی ربط نہیں رہ پائے گا۔
اتنے میں نرس پھر دوڑی آئی:
’’آپ دوسرے ڈونر کا بھی انتظام کیجیے۔ مزید خون درکار ہے اور بہتر یہ ہوگاکہ آپ تیسرا ڈونر بھی بلوالیں شاید ضرورت اس کی بھی ہوگی۔‘‘
’’یار پانڈے کو فون کریں؟‘‘ میں نے شکلا کی طرف دیکھا۔
’’ہاں ہاں دیکھو شاید گھر پر ہی ہوگا۔‘‘ میں نے فون کیاہے۔ اس نے کوئی تفصیل نہیں پوچھی۔ بس اتنا ہی کہا:
’’مت گھبراؤ۔ آرہا ہوں۔‘‘
بیس منٹ کے اندر وہ بھی آگیاہے۔ اس کے ساتھ اس کا سترہ سال کا بیٹا بھی ہے۔ پانڈے بتا رہاہے:
’’یار میرا لڑکا بھی ساتھ آگیاہے۔ اس کا بھی یہی گروپ ہے۔ بولا میں بھی چلتا ہوں شاید زیادہ خون کی ضرورت پڑے۔‘‘
میں ممنون نگاہوں سے اس نوجوان کو دیکھ رہا ہوں جس کی ابھی ٹھیک طرح سے مسیں بھی نہیں بھیگی ہیں۔ پھر پانڈے پوچھتا ہے:
’’احمد کو تم نے خبر نہیں کیا؟‘‘
’’کہاں کرسکا۔ وہ ۹۔۱۰ بجے ڈیرہ پر ہوتا ہی کب ہے۔ صرف شکلا کے لیے کنفرم تھا اس لیے سب سے پہلے اسے ہی فون کیا۔‘‘
’’اب آگیا ہوگا۔ ساڑھے گیارہ بج رہاہے، ٹرائے کرلو۔‘‘
میں احمد کو فون کرتا ہوں:
’’یار میں کرجی سے بول رہا ہوں۔‘‘
’’بولو۔ سب ٹھیک ہے نا!‘‘
’’نہیں یار۔ بیگم کی حالت بہت خراب ہے۔ آپریشن ہورہاہے۔ خون کی شدید ضرورت ہے۔ شکلا اور پانڈے خون دے چکا ہے۔ تم بھی آجاؤ۔‘‘
’’یار میرے کارڈ میں تو بی.پوزیٹو لکھاہے، لیکن میرا خون اس گروپ کا نہیں ہے۔ میرے چھوٹے بھائی کا ہے لیکن وہ تو سوگیا ہے۔ اچھا سویرے دینے سے کام نہیں چلے گا؟‘‘
’’یہاں میری جان جارہی ہے اور تم سویرے کی بات کرتے ہو۔ تم ایسے ہی آجاؤ۔‘‘
’’اس وقت کوئی گاڑی بھی نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’میں بھیج رہا ہوں۔‘‘
میں اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی اپنی بات کہہ کر فون رکھ دیتا ہوں۔ شکلا اور پانڈے کا خون اوپر جاچکا ہے۔ پانڈے بتا رہا ہے کہ جب اس کے والد کو خون دینے کی ضرورت پڑی تو اس کا بی۔پی اتنا ہائی ہوگیاکہ وہ خون نہیں دے سکا۔ وہاں بھی شکلا نے ہی خون دیا تھا۔ وہ تو ڈر رہا تھاکہ کہیں یہاں بھی وہی حال نہ ہو لیکن یہاں بی۔پی نارمل رہا۔
رات کے بارہ بجے ہیں۔ شکلا کو صبح کی چھٹھ کے لیے ۳؍بجے صبح ہی جاگناہے۔ پانڈے کو بھی تیاری کرنی ہے۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک کپ چائے پلانا چاہتا ہوں ،لیکن ایک بھی دُکان کھلی نہیں ملتی۔
شکلا جاتے ہوئے مجھے ایک لفاف تھما رہاہے۔
’’رکھ لو۔ ابھی تمھیں شدید ضرورت ہوگی اور یہ مہینے کا آخر بھی ہے نا!‘‘
میری پلکیں نم ہوگئی ہیں۔ ان دونوں کے جاتے ہی احمد بھی اپنی بیگم کو ساتھ لے کر آگیاہے۔ ساڑھے بارہ بجے نرس بلانے آتی ہے۔ میرے اندر اچانک ایک جھنّاکے کی آواز ہوتی ہے۔ کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں۔ ڈاکٹر سامنے ہے:
’’ہم لوگوں نے کوشش بہت کی لیکن بچی کو نہیں بچاسکے۔‘‘
نرس ایک پھول سی بچی لیے میرے سامنے کھڑی ہے۔ میں اسے اپنی گود میں لے لیتا ہوں۔ اس کے ملائم گال کو بہت نرمی سے چھوتا ہوں ایسا لگتا ہے ابھی خون نکل آئے گا۔ میں ڈاکٹر سے کہتا ہوں۔
’’مگر یہ تو صرف سورہی ہے۔ دیکھئے تو سہی، آپ اسے جگائیے نا! یہ کیسے مرسکتی ہے؟‘‘
ڈاکٹر خاموش ہے۔ احمدنے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیاہے۔ وہ بھی چپ ہے، لیکن اس کے ہاتھ کا دباؤ اس کے دل کی بات بتا رہاہے۔ نرس میری گود سے بچی لے لیتی ہے اور احمد کی طرف دیکھ کر آنکھ سے کچھ اشارہ کرتی ہے۔ وہ مجھے لے کر باہر نکل رہاہے اور میں سوچ رہا ہوں۔
’’بیگم کو کیا جواب دوں گا۔؟‘‘
دوسرے دن آئی۔سی۔یونٹ میں بیگم سے ملنے جاتا ہوں۔ ایک بازو سے خون دوسرے سے سلائن اس کی رگوں میں اُتر رہاہے۔ وہ نیم غنودگی کی حالت میں میری طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ مجھ سے بچی کی خیریت دریافت کرتی ہے، لیکن میں اسے یہ نہیں بتا سکتاکہ تھوڑی دیر قبل ہی میں اس معصوم بچی کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی گہرائی میں دفن کر آیا ہوں اور اسے نومہینے کی ریاضت کا پھل دیکھنا اب کبھی نصیب نہیں ہوگا۔ اس معاملہ میں اﷲ نے ہمیشہ کھلا رکھنے والا اپنا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرلیاہے۔
وہ میری خاموشی سے کچھ سمجھتی ہے اور کچھ سمجھنا نہیں چاہ رہی ہے۔ میں اسے بتارہا ہوں کہ میں لاکھ چاہ کر بھی اپنے جسم کا ایک قطرہ بھی اسے نہیں دے سکا۔ شکلا اور پانڈے کا خون اس کی زندگی کی ضمانت بن کر اس کی رگوں میں دوڑ رہاہے۔ اس کی نگاہیں خلا میں اَٹک گئی ہیں۔ وہ نہ جانے کیا دیکھ رہی ہے۔
بیگم اب خطرے سے باہر ہے۔ دوا چل رہی ہے۔ ابھی پانی دو دن اور چڑھے گا۔ اس معاملے میں بیگم کا بھروسہ نہیں ٹوٹاہے۔ آپریشن کے بعد دوسری صبح گنگا گھاٹ سے دھوتی پہنے ننگے پاؤں شکلا ہاسپیٹل آکر بیگم کی خیریت دریافت کرتے ہوئے اپنے انداز میں کہہ رہاہے:
’’گھبراؤ نہیں اب کچھ نہیں ہوگا۔ اب تو دو دو برہمنوں کا خون میاں جی کے اندر جاچکاہے۔‘‘
’’ہاں اب تو تم بیگم کے خون کے رشتے والے ہوگئے۔۔۔‘‘
وہ میری بات سمجھ کر قہقہہ مار کر ہنستاہے۔
’’نہیں یہ سب نہیں چلے گا سالے۔‘‘
جس دن بیگم ہاسپیٹل آئیں اسی شام چھٹھ کے موقع پر ایک بوٹ حادثہ ہوگیا جس میں ۱۰۰ لوگوں کے قریب گنگا کی نذر ہوگئے۔ ایک صاحب نے بتایاکہ شکلاجی اس حادثے کی خبر دفتر میں اس انداز میں دے رہے تھے۔
’’یہ سب صرف میاں جی لوگوں کی ملی بھگت سے ہواہے۔ کشتی کسی مسلمان کی تھی۔ اس نے اس میں قبل سے ہی سوراخ کردیا تھا۔ اس لیے یہ حادثہ ہوگیا۔‘‘
جو اس کی فطرت سے واقف ہیں وہ یہ سن کر مسکرا رہے ہیں اور کچھ لوگ بہت گمبھیرتا سے اس خبر کو گرہن کرتے ہیں اور یہ خبر پَر لگاکر اُڑنے لگتی ہے۔
بیگم آج دس دن بعد ہاسپیٹل سے گھر آگئی ہیں۔ خبر ملتے ہی شکلاجی، مدھوبھابھی اور چاچی بھی آگئی ہیں۔ چاچی شکلا کی بیوی سے کہہ رہی ہے:
’’پہلے زین، سونو کو راکھی باندھتی تھی۔ اب اس کی ماں شکلا کو راکھی باندھے گی۔ اب یہ میری بیٹی ہوگئی ہے۔ اسے بھابھی مت کہنا اب رشتے میں یہ تمہاری نند ہوگئی ہے۔‘‘
بیگم کی پلکیں نم ہورہی ہیں۔ میں آنسوؤں کے سیلاب کو اندرہی اندر پی رہا ہوں اور شکلا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہے۔
’’دیکھو میاں جی! اس بار بمبئی میں بی۔جے.پی کا مہا ادھیویشن بہت کامیاب رہاہے، اس لیے اب مندروا تو وہیں بنے گا۔ تم لوگ اپنی مسجد کے لیے کہیں اور جگہ چن لو۔‘‘
میں اس کی جانب غور سے دیکھ رہا ہوں اور میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ میں اعتبار کس پر کروں؟
اس کی زبان پر۔۔۔؟
یا۔۔۔
اس کی رگوں میں دوڑنے والے خون پر۔۔۔؟؟