ایتھیکل ہیکنگ کی دنیا کا بڑا نام :رافع بلوچ کی کہانی

جناب پے پال ایک طوطاچشم کمپنی ہے جس پر کبھی فخر پاکستان  رافع  بلوچ نے احسان کیا تھا۔ کیا ستم ہے کہ آج یہ ہماری ہی نہیں سنتا۔  اس کے لیے ہمارے فری لانس  دنیا کے لوگ  نصرت فتح علی خان کا گانا گاتے پھرتے ہیں:

"اکھیاں اڈیکدیاں، دل واجاں ماردا! آجا پردیسیا واسطہ ای پیار دا"

مگرہائے! پے پال ہے کہ سنتا ہی نہیں ہم غریبوں کی۔او بھئی رافع  بلوچ کی بات کرو۔  چھوڑو پے پال وے پال۔ مزاج تو اپنے سٹیٹ بینک کے نہیں ملتے، گلہ پے پال سے کیا؟اور جو بات کرنے  بیٹھے ہو وہ کرو۔ ادھر ادھر کیا نکل جاتے ہو؟

اسی طرف آ رہا ہوں یار۔ غصہ کیوں کرتے ہو؟   تھوڑا سا ماحول گرما رہا تھا۔ آپ تو خود گرم ہو گئے۔ پے پال کا قصہ اس لیے چھیڑا تھا کہ ہمارے شہزادے رافع  بلوچ نے 2012 میں اس کا سرور ہیک کر کے ان کو بتایا تھا:

 کیا سنبھالو گے تم میرے دل کو     جب یہ آنچل سنبھلتا نہیں

میرا مطلب ہے کہ ان کو بتایا تھا کہ آپ لوگوں کی رقمیں کیا سنبھالو  گے، آپ کا تو اپنا سرور محفوظ نہیں۔ یہ سقم ہے  آپ کے حصار میں۔ کوئی بھی چھلاوا، میرا مطلب ہیکر اس طرف آنکل سکتا ہے۔ بعد میں نہ کہنا خبر نہ دی۔  میں تو  شریف بندہ یعنی ایتھیکل ہیکر ہوں۔ ہو سکتا ہے اگلی دفعہ جس ہیکر کا اس طرف سے گزر ہو، اس کو ایتھیکل کا سابقہ نہ لگا ہو۔  وضاحت کے لیے بتاتا چلوں کہ ایتھیکل ہیکنگ، ایسی ہیکنگ کو کہتے ہیں جو آپ لوگوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے نہیں، بلکہ بڑی بڑی کمپنیوں، جن پر لوگ انحصار کرتے ہیں، کے سسٹم مضبوط بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ آپ کی نیت لوگوں کا فائدہ کرنے کی ہوتی ہے۔ جیسے  رافع  بلوچ نے کیا۔ انہوں نے پے پال  کو بتایا کہ آپ کے حفاظتی نظام میں یہ سقم ہے۔ مہربانی کر کے اسے دور کر لیں ۔ اس پر پے پال نے انہیں 10،000 ڈالرز کا انعام دیا۔ آگے چل کے انہوں نے اینڈروائڈ اور دیگر کمپنیوں کے نظام میں سقم بھی تلاش کیے اور ان پر وائٹ پیپر لکھا۔ 2014 میں انہیں اسرائیل کی کمپنی چیک مارکس نے دنیا کے پانچ بڑے ہیکرز میں سے ایک قرار دیا۔

رافع  کو فوربز سمیت دنیا کے دیگر پلیٹ فارم نے  بھی خوب سراہا۔ انہیں طالب علمی کے دور میں ہی بڑی بڑی کمپنیوں سے آفرز ملیں، لیکن انہوں نے پاکستان میں رہنا ہی پسند کیا۔  وہ ایتھیکل ہیکنگ پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔  ان کی لنکڈ ان کی پروفائل بتاتی ہے کہ وہ 2018  سے 2020 تک پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی میں بھی کام کر  چکے ہیں۔ آج کل وہ سائبر سکیورٹی کمپنی سائبر سٹڈل  میں بطور قائد محقق (lead researcher)کام کر رہے ہیں۔ وہ برطانیہ میں چیوننگ سکالرشپ حاصل کر کے ایم ایس سی کر  رہے ہیں یا کر چکے ہیں۔ 

پچھلے برس انہوں نے پاکستان میں بھی تہلکہ مچایا تھا جب انہوں نے ہمارے ایف بی آر کی مدد کی تھی۔ ٹیکنالوجی کی ایک ویب سائٹ رپورٹ  کرتی ہے کہ رافع  نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایف بی آر کا سسٹم ہیک ہو گیا تھا اور دس سے چودہ اگست 2021 کے درمیان اس کے پندرہ سو کمپیوٹرز کی رسائی بلیک ویب پر بک رہی تھی۔ ستم ظریفی ہے کہ بہت سا ڈیٹا ہیکرز صاف کر گئے اور ایف بی آر نے کہیں بیک اپ بھی نہیں رکھا ہوا تھا۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے بتایا کہ وزارت انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر وزارتوں کے ساتھ بھی یہ سلوک ہو چکا ہے۔ اب کرنے والے تو کر گئے جو انہیں کرنا تھا۔ جانے اب ہمارے اداروں نے ہوش کے ناخن لیے ہوں گے یا نہیں۔ امید کر سکتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ بہتری آئی ہو گی۔

خیرحکومت پاکستان نے تمام خدمات اور کامیابیوں پر 23 مارچ 2022 کو رافع  بلوچ کو فخر پاکستان کا خطاب دیا ہے۔  مجھے بھی بہت فخر ہے۔ لیکن تشویش بھی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے وہ کیا؟

"برین ڈرین"

متعلقہ عنوانات