ایک تو پتھر اچھالا جا رہا ہے
ایک تو پتھر اچھالا جا رہا ہے
اس پہ شیشہ بھی سنبھالا جا رہا ہے
گھر اندھیروں کا کھنگالا جا رہا ہے
رات میں سورج نکالا جا رہا ہے
پھول تو مجبوریوں میں کھل رہے ہیں
باغ میں کانٹوں کو پالا جا رہا ہے
فیصلہ آیا ہے برسوں بعد وہ ہی
فیصلے کو کل پہ ٹالا جا رہا ہے
آپ کی تب تک ہی زندہ باد ہوگی
پیٹ میں جب تک نوالا جا رہا ہے
اب سنا ایسے بھی سانچے بن رہے ہیں
جن میں کوزہ گر ڈھالا جا رہا ہے
اب کہاں کندھوں کو کچھ تکلیف ہوگی
بوجھ سارا دل پہ ڈالا جا رہا ہے
بند رہ کر وہ بھی اب اکتا گیا ہے
چابیوں کے پاس تالا جا رہا ہے