ایک سوال
تمام عمر جو اپنے لئے نہ مانگ سکی
وہ سب دعائیں تمہارے لئے ہی مانگی ہیں
ہر اک دعا میں تمہارا ہی نام لب پہ رہا
ہر ایک حرف محبت تمہارے نام رہا
گئی رتوں کے حسیں خواب ساتھ ساتھ چلے
ڈگر ڈگر پہ تمہارا ہی نام لکھتے چلے
جو لوح سادہ پر اک بار تیرا نام لکھا
غبار گرد زمانہ اسے مٹا نہ سکا
یہ اور بات کہ اب اجتناب ہے تجھ سے
یہ اور بات کہ دل احتساب کرتا ہے
یہ اور بات کہ حرف یقین سرد ہوئے
یہ اور بات کہ لفظوں کے پھول زرد ہوئے
چہار سمت کوئی دھند پھیلی جاتی ہے
تلاش ماضی کے اجلے خیال کیسے کروں
تمہیں مناؤں تو میری انا کو چوٹ لگے
تمہیں بھلاؤں تو دل ہی اداس ہو جائے
یہ سچ ہے سچ ہے گریزاں رہے مگر پھر بھی
بتاؤ دل کی تپش کیا کبھی ہوئی محسوس