عید گاہ سے واپسی
پریم چند کا ننھا حامد ستر سال کا بزرگ میاں حامد ہو گیا تھا۔ اسے اپنے بچپن کا ہر واقعہ یاد تھا۔ اُسے یہ بھی یا د تھا کہ وہ بچپن میں عید کی نماز کے لیے گیا تھا تو وا پسی میں تین پیسے کا چمٹا خرید کر لا یا تھا۔ اُس وقت اس کے دوستوں نے اس کا مذاق بنایا تھا۔ لیکن اس کے دو ستوں کے خریدے کھلونے یکے بعد دیگرے میدان چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ اس کے چمٹے کی ایک ضرب نے سب کو بے کا ر کر دیا تھا۔ گھر آ نے پر اس کی دادی پہلے اس سے ناراض ہوئی تھیں اور پھر اُسے خوب پیار کیا اور دعائیں دی تھیں۔ اس کے والدین بچپن ہی میں اللہ کے یہاں چلے گئے تھے، اُسے ان کی صورتیں بھی یا د نہیں تھیں۔ بعد میں دادی نے اُسے غریبی، مجبوری، بے بسی اور لا چاری کے لقمے کھلا کھلا کر پالا تھا۔ اس کا بچپن دو سرے بچوں سے مختلف تھا۔ دونوں دادی پو تے ایک دو سرے کی کائنات تھے۔ اُسے وہ دن بھی یا د تھا جب قیامت صغریٰ نے اُسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ایک رات جب وہ سو رہا تھا۔ بہت تیز آندھی آئی تھی۔ ہوا اور پانی نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ بہت سے پیڑ، پھوس کی چھتیں، کچی دیواریں اور جھونپڑے زمین سے اپنا رشتہ ختم کر چکے تھے۔ ایسے میں اس کی دادی جو گھر کے اسارے میں محو خواب تھیں، چھان گرنے سے دب کر اپنے بچوں کے پاس چلی گئی تھیں۔ وہ دادی دادی کرتا رو تا رہ گیا تھا۔ گاؤں کے ہی لوگوں نے دفن وغیرہ کا انتظام کیا تھا۔ وہ تقریباً پندرہ سال کا تھا۔ اس کا حال ایسا تھا گویا زندگی کی دوڑ میں تنہا رہ گیا ہو۔ اس کا اس بھری پری دنیا میں دادی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ان کے جانے کے بعد پڑوس کے بابا سکھ دیو نے اس کی ہمت بندھا ئی تھی۔ وہ اُسے اپنے گھر لے گئے اور اُسے اپنے بچے کی طرح پالا پوسا۔ گاؤں کے اسکول سے پانچویں تک پڑھنے کے بعد اُس نے پاس کے ایک چینی مل میں مزدوری کا کام شروع کر دیا تھا۔
’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بیلون لینا ہے ‘‘
اس کے آٹھ سالہ پو تے سا جد نے ایک غبارے وا لے کو دیکھ کر اسے ہا تھ پکڑ کر جھنجھوڑا تو وہ ماضی کے صحرا میں چلتے چلتے اچانک رک گیا تھا، ماضی کے واقعات بھی چھلاوے کی طرح غائب ہو گئے تھے۔ وہ اپنے اکلوتے پو تے کے ساتھ عید گاہ جا رہا تھا۔ عیدیں تو ہر سال آ تی رہتی ہیں اور ہر سال وہ عید کی نماز ادا کرتا تھا لیکن اس با ر وہ اپنے پوتے کے ساتھ پہلی دفعہ عید گاہ جا رہا تھا۔
’’بیٹا ابھی نہیں، واپسی پر لینا۔ ابھی نماز کے لیے جا رہے ہیں۔ ‘‘
اس کے گاؤں سے عید گاہ تقریباً 5کلو میٹر دور تھی۔ اس کا اپنا گاؤں ہندو اکثریتی گاؤں تھا وہاں مسجد نہیں تھی پاس کے گاؤں میں مسجد تھی۔ اکثر مسلمان جمعہ اور عید۔ بقر عید کی نما زوں کے لیے وہیں چلے جاتے تھے۔ حا مد کو عید گاہ میں ہی عید کی نماز پڑھنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن کبھی موسم کی خرابی، کبھی وقت کی تنگی اور کبھی کام کی فرا وانی کے باعث وہ ہر سال عید گاہ نہیں جا پاتا تھا۔ اس بار وہ کافی عرصے بعد عید گاہ کے لیے اپنے پو تے سا جد کے ہمراہ نکلا تھا۔ گاؤں سے نماز کے لیے ایک ٹولہ روانہ ہوا۔ کچھ نو جوان اسکوٹر اور بائک سے نکلے تھے۔ کچھ پیدل ہی چل رہے تھے۔ کتنی خوشی اور رونق تھی ان کے چہروں پر۔ واقعی عید اللہ کا انعام ہے۔ ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد،عید کی خوشی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کی محنت، صبر، لگن اور للہیت کے بدلے عید کے دن ان کے گناہ بخش دیتا ہے۔ میاں حا مد نے رمضان کے پورے روزے رکھے تھے۔ گھر میں اس کی بہو بھی روزے کی پابندی کرتی تھی۔ ایک پوتا اور ایک پو تی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس یہی کائنات تھی اس کی۔ بیٹا وا حد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گذشتہ دنوں ہونے وا لے ہندو مسلم فساد کی نذر ہو گیا تھا۔ بیٹے کی یاد آ تے ہی اچانک ذہن کے سا توں طبق روشن ہو گئے۔ چار سال قبل،پس منظر کا حصہ بن چکے مناظر، یکے بعد دیگرے نظروں کے سامنے آ نے لگے۔
ملک پر بڑا برا دن آ یا تھا۔ سرخ آندھی اس بار شہروں سے اُٹھی تھی جو شہروں، شہروں قصبات اور دیہات میں پھیل گئی تھی۔ ہندو مسلم منافرت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیا سے لوگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبا دت گا ہوں کو مسمار کر نے کا جنون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا عبادت گاہوں کی مسماری سے کوئی قوم ختم ہو جاتی ہے ؟یہ وہی ہندو مسلم تھے جنہوں نے شا نے سے شا نہ ملا کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔ آج کیا ہو گیا ہے ان کو؟کیوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں۔ واحد بے چارہ ان حالات سے بے خبر تھا،اس نے تو گاؤں میں آنکھ کھو لی تو اپنے باباسکھ دیو، چاچا بلدیو اور اپنے ہم عمر دوست رام اور کنور پال کو دیکھا تھا۔ وہ تو انہیں کے درمیان کھیلتا ہو ا بڑا ہوا تھا۔ پاس کے ہی شہر میں وہ ایک بیکری میں مزدوری کا کام کرتا تھا۔ اس کی تنخواہ اور گاؤں کی محنت مزدوری سے میاں حامد کسی طرح گھر چلا رہے تھے۔ شہر میں آنے وا لی سرخ آندھی نے بڑی تباہیاں مچا ئی تھیں۔ واحد بھی اس سرخ آندھی کی زد میں آ گیا تھا۔ اسے اس کے ہی ساتھیوں نے تہہ ِتیغ کر دیا تھا۔ غضب تو اس وقت ہوا جب واحد کی لاش گاؤں پہنچی۔
’’ میاں حامد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میاں حامد۔ ۔ ۔ ۔ واحد کی لاش۔ ۔ ۔ ۔ آئی ہے ‘‘بلدیو نے میاں حا مد کو خبر دی تو اُسے جیسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ یا۔ وہ بلدیو کو پکڑ کر چلا یا۔
’’ یہ کیا مذاق ہے۔ ‘‘
ابھی وہ بلدیو کے کاندھوں کو پکڑ کر ہلا ہی رہا تھا کہ ایک گاڑی دروازے پر رکی۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسٹریچر پر واحد کی لا ش لیے دو لوگ اندر داخل ہوئے۔ لاش کو چار پائی پر لٹا کر الٹے قدموں لوٹ گئے۔ کسی میں ان سے وا حد کی موت کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔ سارے گاؤں وا لوں کے سر جھکے ہوئے تھے۔ ایک ایک کر کے سب کو پتہ چل گیا تھا کہ وا حد کو شہر میں اس کے سا تھی مزدوروں نے کاٹ ڈا لا تھا۔ گاؤں کے ہندو، خود کو وا حد کا قاتل محسوس کر رہے تھے۔ میاں حا مد کی حا لت عجیب تھی،ان پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ آواز بند ہو گئی تھی۔ وہ لاش کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہے تھے۔ گویا انہیں امید ہو کہ واحد اب اٹھا اور تب اٹھا۔ اور اٹھتے ہی بابا کہتا ہوا ان سے لپٹ جائے گا۔ اچانک بہت زور سے چیختے ہوئے میاں حامد زمین پر بے سدھ گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ واحد کی بیوی شکیلہ پر بھی بے ہوشی کے دور ے پڑ رہے تھے۔ ساجد اور نازو اپنی ماں کے بے ہوش جسم سے لپٹے رو رہے تھے۔ بلدیو اور گاؤں کے پردھان ٹھاکر امر پال نے تدفین کا انتظام کیا۔ واحد کے جانے کے بعد سے میاں حامد کی حالت اس بوڑھے کی سی ہو گئی تھی جو لاغر ہو، کمر جھکی ہو اور اس کی لاٹھی اس سے چھین لی گئی ہو۔ میاں حامد نے بچپن سے ہی بڑے نازک حالات دیکھے تھے۔ قحط پڑتا تھا تو کھانے کے لالے پڑ جاتے۔ مٹر، باجرہ، بے جھڑ اور جو کی روٹیاں بھی دن میں ایک وقت مل جاتیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ گھر، گھر کیا تھا۔ بس ایک کمرہ اور اسارا تھا۔ کھیتی کی زمین نہیں تھی۔ اس کے باپ دادا نے بھی دوسروں کے یہاں محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالا تھا اور ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا۔ شروع میں باباسکھ دیو کے گھر سے ہی اسے وقت بے وقت کھانا ملتا تھا بعد میں اس نے خود بھی کھانا بنانا شروع کر دیا تھا۔
’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ او بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تتلی پکڑ دو نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی اچھی ہے وہ ‘‘
ساجد کی آواز نے ایک بار پھر انہیں سوچ نگر کی گلیوں سے حقیقت آباد کے کچے راستوں پر لا دیا تھا۔ اس کا پوتا ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ تتلی کبھی ادھر کبھی ادھر جاتی، لیکن ساجد کے پہنچتے ہی اڑ جاتی۔ انہیں ایک پل کو لگا جیسے تتلی ان کی خوشی ہو، جو ہمیشہ اس سے آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے۔ لمحہ بھر کو لگتا کہ اب ہاتھ آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آئی۔ لیکن پھِر پھُرسے اڑ جاتی۔ بے چارے ساجد کو کیا پتہ کہ یہ تتلی ہماری قسمت میں نہیں ؟ہماری قسمت میں تو ہمیشہ کے دکھ ہیں جو سردی کی راتوں جیسے طویل ہوتے ہیں۔
’’ساجد بیٹے۔ نہیں۔ تتلی کے پیچھے نہ بھاگو۔ گر پڑو گے۔ کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ ‘‘
کپڑے،کپڑے تو ساجد نے پہنے تھے مگر نئے نہیں تھے۔ جبکہ ساجد نے پچھلے ہفتے ضد کی تھی۔
’’بابا مجھے بھی نئے کپڑے سلواؤ نا،میں بھی حشمت کی طرح نئے کپڑوں میں عید گاہ جاؤں گا۔ ‘‘
’’اچھا بیٹا۔ ۔ ۔ لادیں گے ‘‘بوڑھے حامد میاں نے مجبوراً کہا۔
اور انہوں نے ساجد کو پرانے کپڑوں کے ڈھیر میں سے ٹھیک ٹھاک سے کپڑے لادیے تھے۔ اتفاق سے چینی مل کے باہر پرانے سستے کپڑوں کا ایک ٹھیلہ عید کے سبب لگا تھا۔ اس نے سرخ رنگ کی شرٹ اور نیلی پینٹ لے جا کر بہو کو دیے۔
’’بہو انہیں دھو دینا۔ اور تہہ کر کے نیچے رکھ کر اس پر پہلے پھونس پھر بستربچھا دینا۔ میں سو جاؤں گا۔ کپڑوں پر استری ہو جائے گی۔ ‘‘
بہو نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساجد کو ماں اور دادا نے بہکا لیا تھا۔ چھوٹی نازو کی طبیعت خراب تھی اسے ماتا نکل آئی تھی۔ وہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔ ہر وقت روتی رہتی۔ مکھیاں اسے پریشان کرتیں۔ حامد مکھیوں کو دیکھ کر کئی بار سوچتا۔ ’’اللہ نے مکھیاں کیوں پیدا کی ہیں۔ یہ تو سب کو پریشان ہی کرتی ہیں۔ ‘‘پر پھر خود ہی دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگتا کہ اللہ نے ہر چیز سوچ سمجھ کر ہی پیدا کی ہے۔
عید سے دو دن پہلے گاؤں کے حاجی لطیف ان کے پاس آئے تھے اور زکوٰۃ کے تین سو روپے دے گئے تھے۔ انہوں نے کچھ پیسوں سے گھر کی ضروریات کو پورا کیا تھا۔ ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ نازو کی بیماری اور گھر کے خرچے میں لگ جاتا تھا۔ عید کے لیے پیسے کہاں سے آتے۔ زکوٰۃ کے پیسوں سے انہیں کچھ راحت ملی تھی۔ انہوں نے سوچا تھا کہ اب کی عید پر وہ ساجد کو ریموٹ سے چلنے والی کار اور نازو کو پلک جھپکنے والی گڑیا خرید کر لائیں گے۔ بہو جو جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی ، کے لیے ایک سوٹ لائیں گے۔ عید گاہ جانے سے پہلے انہوں نے نہا کر اپنے پرانے دھلے کپڑے پہنے۔ پھر ساجد کو تیار کیا۔ ساجد کی ماں اسے عید گاہ بھیجنے کو تیار نہ تھی۔ لیکن ساجد کی ضد اور میاں حامد کی مرضی کے آگے وہ مجبور ہو گئی تھی۔ شوہر کی موت کے بعد اسے تو ہر وقت خدشہ لگا رہتا تھا کہیں اس کے بیٹے کو کچھ نہ ہو جائے۔ گاؤں کے لوگ ساجد کو بہت پیار کرتے تھے،وہ تھا ہی بہت پیارا۔ عید گاہ چلنے سے پہلے انہوں نے سویّاں کھائیں۔ پھر ایک ایک روپیہ سب کو عیدی کے دیے۔ انہوں نے بلدیو کے بچوں کو بھی عیدی دی تھی۔ وہ ہر سال ان کے بچوں کو عیدی دیا کرتے تھے۔ ساجد نے اپنے اور نازو کے روپے اپنی جیب میں رکھ لیے تھے۔ گاؤں کے دس بارہ بڑے بوڑھوں، بچوں پر مشتمل یہ ٹولہ سفید کرتا پاجا مے میں ملبوس سرپر ٹوپیاں لگائے عید گاہ کے لیے نکلا تھا۔ عید گاہ تک جانے کے لیے تین گاؤں کو پار کرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ راستے کے دونوں جانب ہری فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ گیہوں کے کھیتوں پر شباب کا رنگ تھا۔ سرسوں پھول رہی تھی۔ ہرے اور پیلے رنگ نے زمین کو اس کنواری دوشیزہ سا بنا دیا تھا جس نے سبز رنگ کے کپڑوں پر پیلا دوپٹہ اوڑھ رکھا ہو، بلکہ ایسا بھی گمان ہو رہا تھا گویا قدرت زمین کے ہاتھ پیلے کرنے کی تیاری کر رہی ہو۔ بَٹیا کے دونوں جانب فصلوں کی مہک دیوانہ بنا رہی تھی۔ کہیں مٹر کے سفید اور جامنی پھول، کہیں ایکھ کے کھیت۔ گاؤں میں ایک آدھ کولہو بھی نظر آ جاتا۔ کولہو سے گڑ کی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی۔ ویسے اب زیادہ تر کسان شوگر ملوں میں ہی گنا ڈالتے تھے اور نقد روپے لے آتے۔ اب گاؤں میں بھی بہت کچھ بدل گیا تھا۔ گاؤں کی نئی نسل کے بچے جب سے پڑھ لکھ گئے تھے اور کچھ نے باہر سروس شروع کر دی تھی گاؤں کا ماحول تبدیل ہونے لگا تھا۔ اب وہ پہلے جیسی بے لوث محبت نہیں رہی تھی۔ پہلے گاؤں کے کسی ایک شخص کا داماد سارے گاؤں کا داماد ہوتا تھا۔ اس کی اتنی خاطر کی جاتی کہ وہ خاطر سے پریشان ہو جاتا تھا۔ ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونا، ایک دوسرے کے کام کروانا۔ چھان اٹھوانا، ایکھ بُوانا، شادی بیاہ میں ہاتھ بٹانا ان کا معمول تھا۔
’’میاں حامد۔ ۔ ۔ ۔ میاں۔ ۔ ۔ ۔ تنک سستائے لیو۔ ۔ ۔ ۔ رس پی لیو۔ گرم گڑ کھالیؤ۔ ‘‘
مُراد پور گاؤں کے کولہو والے بزرگ چاچا ایشور نے عید گاہ جاتے قافلے کو روک لیا تھا۔ مُراد پور کے گاؤں کے مسلم بھی عید گاہ جانے کو تیار تھے۔ جلد ی جلدی قافلے کی خاطر کی گئی۔ قافلہ پھر آگے بڑھ گیا۔ حامد کو سکون ہوا کہ چلو ابھی بڑے بزرگوں میں کم از کم اتنی محبت اور خلوص تو باقی ہے۔ قافلہ اب پکی سڑک پر آ گیا تھا۔
میاں حامد نے اپنے پوتے ساجد کو کندھے پر بٹھا لیا تھا۔ قافلہ پکی سڑک کی ایک جانب قطار بنا کر چل رہا تھا۔ اچانک ایک تیز رفتار بس قافلے کے کے نزدیک سے گذری۔ سب لوگ جلدی سے ایک طرف کو نہ ہو گئے ہوتے تو معاملہ خراب ہو سکتا تھا۔
’’ابے اے کٹوؤ!کہاں جا رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
موٹر سائکل پر سوار تین کم عمر اوباش قسم کے نوجوان، زور سے چلّا تے ہوئے برق رفتاری سے گذر گئے۔ ننھا ساجد چونک گیا۔
’’بابا یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کٹوا کیا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’کچھ نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ گندے بچے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ایسے نہ بننا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میاں حامد کے چہرے پر ناگوار ی کے تاثرات تھے۔ زمانہ کتنا بدل گیا تھا۔ بڑے چھوٹوں کا امتیاز ہی نہ رہا۔ بیٹے،باپ کے سامنے بیٹھتے بھی نہیں تھے۔ میاں بیوی کسی کی موجود گی میں ساتھ بیٹھنے سے بھی کتراتے تھے۔ بہو،ساس سسر کا احترام کرتی تھی۔ آج سب الٹ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب فلموں اور فیشن سے ہوا تھا۔ بچوں میں فلموں کا شوق دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ وہیں سے خرافات سیکھتے ہیں۔ فیشن اللہ توبہ ! لڑکیاں بھی پتلون پہننے لگی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بازو کی قمیضیں۔ دوپٹا یا تو گلے میں پٹے کی صورت یا پھر ندارد۔ گاؤں بھی تبدیل ہو گئے تھے۔ کچے مکانوں کی جگہ پختہ اور بڑے مکان، موٹر سائیکلیں اور کاریں اب اکثر دکھائی دیتیں۔ پہلے کسی کے گھر کار ہوتی تو اسے بڑا رئیس مانا جاتا، لوگ اس کی مثالیں دیتے تھے۔ گاؤں کو شاہراہوں سے ملانے والی کچی سڑکیں کھڑنجے یا تار کول کی بننے لگی تھیں۔ علاقے میں فیکٹریاں اور مل لگنے لگے تھے۔ ترقی اور تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانیت ختم ہوتی جا رہی تھی۔
’’بابا عید گاہ کب آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’بس بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ وہ جو گاؤں دکھ رہا ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ بس اسی گاؤں میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بھئی ذرا جلدی چلو۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ایسا نہ ہو نماز چھوٹ جائے۔ رمضان کی ساری محنت ڈوب جائے گی۔ ‘‘
میاں حامد نے قافلے کے بڑے، چھوٹوں، سب کو نصیحت کی۔ اور سب جلدی جلدی قدم بڑھانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں وہ اسلام پور کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے۔ اسلام پورمسلم اکثریتی گاؤں تھا۔ عید گاہ کے راستے پر دونوں طرف میلہ لگا تھا۔ ساجد تو بے چین ہوا جارہا تھا۔ کہیں جھولے والے آواز لگا رہے تھے۔ کہیں غبارے دھاگوں سے بندھے ہوا میں جھوم رہے تھے۔ گول گپے والے، چاٹ پکوڑی والے، چھولے کی چاٹ، دہی بڑے،بتاشے والے، مکا کی کھیلوں والے، کھلونوں کی تو بہت سی دکانیں تھیں،کسی دکان پر ہر مال پانچ روپے، کسی پر ہر مال دس روپے کا بورڈ لگا تھا۔ ساجد کی نظریں چاروں طرف بکھری بازار کی رونقوں کو دیکھ کر ہونق ہوئی جا رہی تھیں وہ سب کچھ خرید لینا چاہتا تھا۔
’’بھیا آ جاؤ۔ جلدی آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کھڑی ہونے والی ہے۔ ‘‘
عید گاہ سے کئی لوگ راستے میں آنے والوں کو پکار رہے تھے۔
قافلے نے لپک کر عید گاہ میں قدم رکھا۔ عید گاہ بہت بڑی نہیں تھی۔ مغرب کی طرف مسجد جیسی عمارت کی تقریباً بیس فٹ اونچی دیوار تھی جس میں کنگورے کٹے ہوئے تھے دیوار کے آخری سروں پر دو بلند مینار تھے۔ باقی دور تک خالی زمین جو سال میں دو نمازوں کے لیے اپنا دامن پھیلائے رہتی تھی۔ عید میں بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ اسلام پور کے علاوہ آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی یہیں نماز پڑھنے آتے تھے۔ میاں حامد بچپن سے اب تک نجانے کتنی بار عید گاہ آئے تھے۔ نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے تو ایسا لگتا گویا فرشتے زمین پر اتر آئے ہوں۔ نماز کے بعد اسلام پور کے لوگ آس پاس کے لوگوں کو بغیر کچھ کھائے پیئے واپس جانے نہ دیتے میاں حامد کے ساتھ کئی بار بلدیو چاچا کے بچے بھی آ جاتے تھے۔ مسلمان نماز پڑھتے اور وہ سب کے جوتے چپلوں کی رکھوالی کرتے بعد میں عید گاہ میلے سے میاں حامد ان کے لیے کچھ نہ کچھ تحفے ضرور خریدتے۔ وہ سب اپنے بھائی ہی تو تھے۔ وہ سب میاں حامد سے چھوٹے تھے۔ میاں حامد کو اچھی طرح یاد تھا کہ ایک بار بلدیو چاچا نے اپنی ٹریکٹر ٹرالی نکالی تھی اور گاؤں کے سارے مسلمانوں کو بھرکر عید گاہ لائے تھے۔ کتنا میل ملاپ تھا لوگوں میں۔ گاؤں میں امن و امان تھا۔ گاؤں کے حالات سیاست سے بدلے تھے۔ اب گاؤں میں بھی سیاست بڑھنے لگی تھی، پردھان اور گاؤں کے امیر لوگ ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہتے۔ رات کو موٹر چور ی کرواتے، صبح کو ہمدردی جتانے پہنچ جاتے۔ اور دو ایک دن بعد موٹر کہیں سے بر آمد ہو جاتی۔ اسی طرح بیل اور بھینس بھی غائب ہو جاتیں۔ انہیں اچانک دس سال قبل کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب اس نے ایک رات بابا سکھ دیوکی بھینس چراتے مکھیا کے بڑے لڑکے کو دیکھ لیا تھا۔
’’چور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو بھینس لے جا رہا رہے۔ چاچا۔ ۔ ۔ او بابا، بھیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس کی آواز پر بھینس کو بیچ میں چھوڑ کر چور فرار ہو گئے تھے۔ مگر اس نے ایک چور کو پہچان لیا تھا۔ اور غضب تو اس وقت ہو گیا جب اگلے دن پنچایت میں اس نے مکھیا کے بیٹے کا نام سب کے سامنے کہہ دیا۔ مکھیا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔
’’تم جھوٹ بولت ہو۔ ۔ ۔ ۔ میرا بیٹا نہیں کوئی اور ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’نہیں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بیر پال کو دیکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’پنچوں یہ مسلمان ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہندوؤں میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میاں حامد نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ بات اس کے کردار پر آ جائے گی۔ نفرت کیا ہوتی ہے، اسے پتہ ہی نہ تھا۔ اس نے تو کبھی کسی کو بری نظر سے بھی نہیں دیکھا۔ کیا ہندو، کیا مسلمان۔ وہ تو بچپن سے ہی بابا سکھ دیو کے گھر رہ کر بڑا ہوا تھا۔ انہوں نے ہی اس کی شادی کروائی تھی۔ گاؤں کے کئی مسلمانوں نے اسے سمجھایابھی تھا کہ سکھ دیو کے گھر نہ رہے لیکن اس نے کسی کی نہ سنی تھی۔ پھر بابا اسے بیٹا ہی تو مانتے تھے۔ ہمیشہ اس کے دکھ سکھ میں شریک رہتے۔ مکھیا کے جملے نے تو جیسے میاں حامد کے سینے کو گرم سلاخوں سے داغ دیا تھا۔ اس کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ گم سم ہو گیا۔ مانوں اس کی زبان کاٹ دی گئی ہو۔ لیکن اگلے ہی لمحے سکھ دیو اور ان کے خاندان والوں نے مکھیا اور اس کے بیٹے پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دی تھیں۔ دونوں طرف سے زور دار حملے ہو رہے تھے۔ اس سے قبل کے کچھ انرتھ ہو جاتا، حامد میاں نے ایک زور کی چیخ ماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’بند کرو خدا کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘
اور واقعی لڑائی کو اچانک بریک لگ گئے تھے۔
’’تم لوگ میرے اوپر لڑ رہے ہونا۔ چلو میں گاؤں چھوڑ کر ہی چلا جاتا ہوں۔ ‘‘
میاں حامد کی آنکھوں سے آنسو روا ں تھے، انہوں نے اپنا منھ دونوں ہتھیلیوں میں چھپا رکھا تھا۔ ان کے اتنا کہتے ہی مکھیا اور بلدیو چاچا ایک ساتھ ان کی اور لپکے تھے۔
’’نہیں حامد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم گاؤں نہیں چھوڑو گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور پھر وہ ہوا جو گاؤں والوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مکھیا نے اپنے بیٹے بیر پال کو سب کے سامنے مارنا شروع کر دیا۔
’’اس کے کارن سب کچھ ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
بڑی مشکل معاملہ رفع دفع ہوا تھا۔ گاؤں میں حامد کی الگ پہچان تھی۔ وہ ایک ایماندار مسلمان تھا۔ جو جتنا مسلمانوں کا ہمدرد تھا اتنا ہی ہندوؤں کا بھی۔
’’اللہ اکبر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
امام صاحب نے نیت باندھ لی تھی سب نے دو رکعت نماز ادا کی۔ خطبہ سنا اور دعا مانگنے لگے۔ میاں حامد نے خدا کی بار گاہ میں ہاتھ اٹھائے۔ ان کے لب تھر تھرا رہے تھے،ہاتھ بھی لرزنے لگے۔ ’’اے خدا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے خدا۔ ۔ ۔ ۔ ہم بڑے گنہ گار ہیں۔ اے خدا ہمیں مسلمان کے ساتھ ساتھ انسا ن بھی بنا۔ مجھے انسانوں کی خدمت کرنا سکھا۔ یہ جو ایک عجیب قسم کی آندھی شہروں سے گاؤں کی طرف چلی آ رہی ہے ہمیں اس سے محفوظ رکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
دعا کے بعد سب ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ میاں حامد جھک کر اپنے پوتے ساجد سے گلے ملے۔ گلے ملتے وقت انہیں بے پناہ طمانیت اور مسرت کا احساس ہوا۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ ساجد کے اندر سرایت کر گئے ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ بن گئے ہیں بچہ جو معصوم ہوتا ہے جو فرشتہ صفت ہوتا ہے۔
’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آؤ نا کھلونا لیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
ساجد نے ان کا ہاتھ کھینچا تو وہ دکانوں کی طرف چل دیے۔ ساجد نے بہت سے کھلونے دیکھے۔ سب کو فیل کرتا گیا۔ آخر میں اسے اسے ریموٹ سے آگے پیچھے ہونے والی ایک خوبصورت سی کار پسند آ گئی۔ ساجد نے ضد کر لی بابا میں تو اسے ہی لوں گا۔
’’بھیا کتنے کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
’’بابا پورے سو روپے کی ‘‘
’’سوروپے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘میاں حامد کا منھ حیرت سے کھل گیا تھا۔
وہ سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی جیب میں کل ڈیڑھ سو روپے رکھے تھے۔ اگر وہ کھلونا خرید لیتے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ لیکن وہ پوتے کا دل بھی نہ توڑنا چاہتے تھے۔ آخر کار ساجد کی ضد جیت گئی۔ مول بھاؤ کے بعد سودا پچاس روپے میں ہو گیا۔ پھر دونوں نے نازو کے لیے ایک آنکھیں مٹکاتی گڑیا خریدی،بابا سکھ دیو کے بچوں کے لیے بھی کھلونے اور دوسراسامان خریدا۔ سامان لے کر وہ نکل ہی رہے تھے کہ اچانک گولیوں کے دھماکوں سے فضا گونج اٹھی۔ اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ در اصل اس بار عید اور کانوڑ یاترا آس پاس ہی تھے۔ سارے علاقے میں دہشت تھی۔ ہر طرف زعفرانی رنگ لہرا رہا تھا۔ پتہ چلا کہ کانوڑیوں کا ایک جتھا اسلام پورسے گذر رہا تھا۔ ان پر کسی مسلمان نوجوان نے پتھر مار دیا تھا بس کیا تھا۔ کارسیوکوں نے مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیا تھا۔ خبر پھیلتے ہی گاؤں کے مسلمانوں نے گولیاں چلانی شروع کر دی تھیں۔ کارسیوکوں کی حمایت میں بھی بندوقوں نے گولیاں اگلنی شروع کر دی تھیں۔ گولیوں کا نشانہ بن کر کئی لوگ لاشوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔
میاں حامد نے ساجد کو گود میں اٹھا لیا اور ایک طرف کو بھاگنا شروع کر دیا۔ انہوں نے قافلے کے دوسرے لوگوں کو ادھر ادھر دیکھا بھی، لیکن وہ ایک لمحہ بھی انتظار میں گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ گاؤں کے حاجی شوکت نے حامد میاں کو اسلام پور میں ہی رکنے کو کہا۔ اسلام پور مسلمانوں کا بڑا گاؤں تھا۔ مگر حامد میاں نے منع کر دیا اور ایک طرف بھاگنے لگے۔ وہ بہت تیز دوڑ رہے تھے۔ ساجد کے ہاتھوں میں کار، گڑیا اور دوسرا سامان تھا۔ ننھے ساجد کو پتہ نہیں تھا اس نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میاں حامد پکی سڑک تک آ گئے تھے۔ ان کے بوڑھے قدموں میں نجانے کہا ں سے طاقت آ گئی تھی۔ در اصل موت کا ڈر۔ خود ایک زبر دست طاقت عطا کر تا ہے۔ ان کو ڈر تھا کہ اسلام پور کا معاملہ جب دوسرے گاؤں پہنچے گا تو ظلم ہو جائے گا۔ وہ اس لمحے کے آنے سے قبل ہی اپنے گاؤں پہنچ جانا چاہتے تھے۔ سڑٖک پر پیچھے سے شور کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا ایک بھیڑ بے تحاشہ بھاگی آ رہی تھی۔ لوگوں کے ہاتھوں میں تلواریں، لاٹھیاں اور بلّم تھے۔ انہوں نے سڑک سے کھیتوں میں بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ اب بس ایک گاؤں پار کرنا رہ گیا تھا، جس کے پار ان کا گاؤں تھا۔ دوڑتے دوڑتے وہ تھک گئے تھے۔ گاؤں کے ایک ویران پڑے ٹیوب ویل کے پاس وہ سانس لینے کو رکے۔ انہوں نے راستے سے خود کو چھپا لیا تھا تاکہ کوئی گذرے تو دیکھ نہ پائے۔
’’بابا۔ ۔ ۔ کیا ہوا۔ آپ کیوں بھاگ رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’چپ۔ ۔ ۔ ۔ پ۔ ۔ ۔ ‘‘
میاں حامد نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کہیں کوئی آواز نہ سن لے۔ اتنے میں گاؤں میں زبر دست دھماکہ ہوا۔ لگا جیسے کہیں کوئی بم پھٹا ہو۔ اسلام پور سے اٹھنے والی آندھی سرخ ہوتی جا رہی تھی۔ موقع ملتے ہی چنگاری، شعلہ بن رہی تھی۔ آگ گاؤں گاؤں پھیلتی جا رہی تھی۔ میاں حامد کے جسم میں خوف کا ناگ بری طرح لہرایا تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنا راستہ تبدیل کیا۔ اب وہ گاؤں سے نہ گذر کر کھیتوں کھیتوں اپنے گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دوڑتے دوڑتے وہ اپنے گاؤں کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے۔ ساجد کو نیچے اتار کر انہوں نے ایک لمبی سانس لی۔ ان کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا پر انہیں اطمینان ہو گیا تھا کہ اب وہ اپنے گاؤں میں آ گئے ہیں وہ گاؤں جہاں ان کی اور ان کے باپ دادا کی عمریں گذری تھیں۔ وہ اطمینان سے ساجد کی انگلی پکڑے گاؤں کی طرف چل پڑے۔ ابھی وہ گاؤں میں داخل ہی ہوئے تھے کہ گاؤں سے ایک شور بلند ہوا۔
’’مارو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکڑو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس سے قبل کہ میاں حامد کچھ سمجھ پاتے ایک جتھا سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ خون کی پیاسی تلواریں، قتل و غارت کا جنون اور دہشت پیدا کرنے والی آوازیں۔ انہوں نے پلک جھپکتے ہی ساجد کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور جیسے ہی ایک طرف کو بھاگنا چاہا مکھیا کے بیٹے بیر پال کی دو نالی سے نکلنے والی ایک بے رحم گولی نے ساجد کو نشانہ بنا لیا۔
ساجد کے جسم کو پار کرتی ہوئی گولی میاں حامد کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی۔ گولی نے اس طرح معصوم ساجد کا جسم پار کر کے میاں حامد کو زمین کا پیوند بنا دیا تھا جیسے حرملہ کا تیر معصوم علی اصغر کے حلق سے ہوتا ہوا امام حسین کے بازو میں ترازو ہو گیا تھا۔ دونوں زمین پر آ رہے۔ خون کا فوارہ دونوں جسموں سے بلند ہو رہا تھا۔ زمین ساکت تھی۔ آسمان خاموش تھا۔ ہوا سانس لینا بھول گئی تھی۔ دونوں کے خون میں لت پت لاشے پڑے تھے اور تھوڑی ہی دوری پر ساجدکی کار، نازو کی گڑیا،بہو کا سوٹ،ایک دھوتی اور ایک چھوٹی سی پیتل کی لٹیا پڑی تھی، جو میاں حامد بابا سکھ دیو کے گھر والوں کے لیے لائے تھے۔