موت

جاگیں کبھی نہ ایسا سلاتی ہے وقت پر
شاہ و فقیر سب کو اٹھاتی ہے وقت پر


ممکن ہے کسی وقت وہ بے وقت ہنسا دے
یہ بات مگر طے ہے رلاتی ہے وقت پر


سب اس کو انگلیوں پہ نچاتے رہے مگر
تگنی کا ناچ وہ بھی نچاتی ہے وقت پر


پل بھر بھی کام ہونے پہ رکتی نہیں کبھی
آتی ہے جیسے ویسے ہی جاتی ہے وقت پر


عمر رواں کے ساتھ وہ رہتی ہے عمر بھر
بس ایک بار روٹھ کے جاتی ہے وقت پر


انجام اس کا باعث عبرت ہو اس لئے
ہو گر برا کوئی تو ستاتی ہے وقت پر


جو در بہ در ہے آخری منزل کی کھوج میں
اس کو بھی سیدھی راہ دکھاتی ہے وقت پر


اسٹیج پر دکھا کے نئے کھیل تماشے
پردہ وہ زندگی کا گراتی ہے وقت پر


ہے موت بھی عجیب ہی معشوق ؔخواہ مخواہ
وعدہ کئے بغیر بھی آتی ہے وقت پر