آبائی مکانوں پر ستارہ

زمانے بہہ گئے کتنے
وہی آنگن جو وسعت میں مجھے دنیا لگا کرتا تھا
وہ دو جست نکلا
جس جگہ دالان تھا
اب اس جگہ ہموار مٹی منہ چڑھاتی ہے
ادھر ہموار مٹی سے ادھر
وہ ڈھیریاں مٹی کی کب سے منتظر ہیں
کوئی ملنے ہی نہیں آتا
یہیں تھے وہ
جو اب مٹی ہیں
جن کے خال و خد پورے بدن پر زور دے کر یاد کرتا
ہوں
یہیں تھے وہ
مرے بکسے میں یادوں اور دھاگوں جڑی عینک تو رکھی
ہے
مگر دادا کی
نیلی جھلملاتے پانیوں جیسی دو آنکھیں بہہ گئی ہیں
اور دادی کی سنائی سب کتھائیں
خاک اندر رہ گئی ہیں
وقت اب بھی بہہ رہا ہے
میری آنکھوں
اور قبروں سے
وہاں آنگن کے سوکھے پیڑ تک
سارے میں اتنی خاک اڑتی ہے
دکھائی کچھ نہیں دیتا