گلیڈی ایٹر

عجیب منظر تھا
شور ایسا
کہ
کان اندھے ہوئے پڑے تھے
میں خواب میں اک تماش بیں تھا
میں دیکھتا تھا
وہ لڑ رہے تھے وہ ایک دوجے سے لڑ رہے تھے
غبار اڑتا تھا ان رتھوں سے
جو ان کے جسموں کو روندنے کے لیے رواں تھیں
میں دیکھتا تھا
وہ سانس اندر کو کھینچتے تھے تو کھڑکھڑاتے تھے
اور ہواؤں کے خالی دامن میں دھوکہ زیادہ تھا سانس کم تھے
پھر ان کے زخموں سے خون رستا تھا
جو تپکتی زمیں پہ گرتا تھا
اور چمکتا تھا
صرف میں تھا وہاں پہ موجود لاکھوں لوگوں میں صرف میں تھا جو
ان کے زخموں پہ رو رہا تھا
میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا
عجیب منظر تھا
خواب کے گھر سے لوٹ آیا ہوں
ایک جھٹکے سے آنکھ کھولی ہے
جسم آباد ہو گیا ہے
اب اپنے بستر کی سلوٹوں پر بدن کو محسوس کرتے سوچا ہے
میں بھی دنیا کے اس ایرینا میں لڑ رہا ہوں
مرے بدن سے بھی خون ہوتا ہوا پسینہ زمین پہ گرتا ہے
اور چمکتا ہے
آج مرے لیے بھی ظالم ہوا کے دامن میں سانسیں کم ہیں
گلیڈی ایٹر ہوں
اور ہاتھوں میں یہ قلم ہے
مرے لیے کوئی آنکھ نم ہے