دور دور منزل کا کچھ پتا نہیں ملتا
دور دور منزل کا کچھ پتا نہیں ملتا
رات کے مسافر کو راستہ نہیں ملتا
وہ ترا ستم جس پر دل کو پیار آتا ہے
یہ مری وفا جس کا کچھ صلہ نہیں ملتا
درد کے سمندر میں دل کی ناؤ ڈوبی تھی
تم کہاں تھے ایسے میں کچھ پتہ نہیں ملتا
سب غم محبت کا جبر سہہ نہیں سکتے
سب کو زہر پینے کا حوصلہ نہیں ملتا
ہائے اس ستم گر کو اس گلے کا شکوہ ہے
دل کے سارے قصے میں جو گلہ نہیں ملتا
دل کی رہ گزاروں کو جانے کیا ہوا مسرورؔ
اب کوئی بہاروں کا قافلہ نہیں ملتا