جدید جنگ کا جدید فوجی : ڈرون کیسے جنگوں کا سٹائل بدل رہا ہے؟

ڈرون!

یقیناً یہ  لفظ گونجتے  ہی پاکستانیوں خصوصاً اس کے شمال مغربی شہریوں کے بہت سے زخم ہرے ہو جاتے ہوں گے۔     اک عرصہ ان کی زندگیاں اس  سفاک ہتھیار سے لرزتے گزری ہیں۔ اس   کی سفاکیت اس لیے ہے کہ اس کو اڑانے والا کہیں دور محفوظ مقام پر ایک ویڈیو گیم کی طرح اسے اڑا رہا ہوتا ہے۔ ٹارگٹ  کو دیکھ کر اسے ایسے ہی بٹن دبانا ہے جیسے آپ کے ساتھ بیٹھے چھوٹے بھائی نے پب جی گیم پر۔ پھر اس سے نکلنے والا مزائل ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ کس کس  معصوم  انسان کے پرخچے اڑا جائے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ ہدف چوک جائے اور نشانہ بنیں  تمام کے تمام عام شہری۔ شاید اسے اڑانے والے کو ہدف چوکنے پر دکھ بھی اتنا ہی ہو جتنا آپ کے بھائی کو پب جی میں ٹارگٹ چوکنے پر۔ کیونکہ اسے پتہ ہے، تمام تر نقصان  کے لیے صرف دو الفاظ کافی ہیں۔ "کولیٹرل ڈیمیج"۔

خیر!

یہ ڈرون کیسا بھی سفاک ہے  اور آپ کچھ بھی اس کے خلاف کہہ لیں، حقیقت یہ ہے کہ آج یہ ہتھیار جنگوں کے پانسے پلٹ رہا ہے۔ امریکہ نے اسے پاکستان، افغانستان، یمن، صومالیہ اور جانے کہاں کہاں کے انسانوں پر آزما دیکھا ہے۔ اس نے ہی آذر بائیجان اور آرمینیا کے مابین ہونے والی نگورنو  کارباغ میں لڑائی کا پانسا بدلا تھا۔  یہی مشرق وسطیٰ کے تمام حریفوں کو ایک دوسرے  پر مسابقت دے رہا ہے۔ ایران اس کے ذریعے ہی  اسرائیلیوں کو دراتا ہے۔ حوثی باغی اس کے ذریعے ہی جا کر سعودی عرب میں آرام کوہ کو تباہ کر آتے ہیں۔ یہی قاسم سلیمانی کو موت کے گھاٹ اتار کر دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر  لے  آیا  تھا۔  ترکی نے لبیا میں خلیفہ حفتر کی فوجوں کو ان کے ذریعے ہی دارالحکومت طرابلس سے  بھگایا تھا۔ آج یوکرائینی جنگ میں  اسی کے ساتھ روسی میزائلوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ آج کسی بھی طاقت کے پاس اس کا توڑ موجود نہیں۔ اس ڈرون کو ہی جدید اے سمٹریکل جنگ کا بادشاہ مانا جا رہا ہے۔

یہاں وضاحت کے لیے بتاتا چلوں کہ اے سمٹریکل جنگ ایسی جنگ کو کہتے ہیں، جس میں بنا روایتی  فوجیوں کے فوجیں آپس میں لڑتی ہیں۔ یہ ڈرون ایسی جنگ کا بادشاہ اس لیے ہے کہ اگر فوج نے جاسوسی کروانی ہے  تو پچاس ہزار کے فٹ پر اسے حریف کے علاقے میں بھیجیں۔ چھوٹا سا ہوتا ہے یہ نظر بھی نہیں آتا۔ اس کی انفراریڈ ریز دشمن کے گھروں کے اندر تک کی خبریں آپ کو لا دیں گی۔ اس دوران یہ پکڑا بھی گیا تو کیا ہوا۔ انسانی جان تو ہے نہیں، پھر جس کا کچھ خطرہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ دشمن اسے تباہ ہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح آپ نے حملہ کروانا ہے تو اس کے جوہر تو آئے دن ہی آپ کے سامنے آتے رہتے ہیں۔

اب ذرا یہ دیکھ لیتے ہیں کہ دنیا کے جدید ترین ڈرون اس وقت کون کون سا  ملک تیار کر رہا ہے۔  ظاہر ہے دیگر ہتھیاروں  کی طرح امریکہ ہی  اس ٹیکنالوجی میں آگے  ہے۔ اس کی کمپنیاں ہی سب سے زیادہ ڈرون بنا رہی ہیں۔ پھر چین ہے روس ہے ، اسرائیل ہے اور   چند دیگر ممالک۔ لیکن اس وقت جس کے ڈرونز نے دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے، وہ ترکی ہے۔ ترکی نے ڈرون ٹیکنالوجی  میں خاصی ترقی کر لی ہے۔  سیلسس بریکٹر Selçuk Bayraktar  نے ترکی کو اس ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانے کے  لیے خاصی معاونت کی ہے۔ انہی کے بنائے ڈرون بریکٹر ٹی بی 2آج کل ڈرون کی دنیا میں چھائے ہوئے ہین۔ بریکٹر ٹی بی 2 یوکرائنی جنگ میں  روسی افواج کو کیا نقصان پہنچا رہیں ہیں، ان کی ویڈیوز آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھ ہی لی ہوں گیں۔ بعض ماہرین تو انہیں امریکی ڈرون پریڈیٹرز سے بھی بہتر گردان رہے ہیں۔ اس کی ایک تو  وجہ ان کا سائز ہے، جو کہ خاصا چھوٹا ہے اور دوسرا یہ چوبیس گھنٹے سے بھی زائد ہوا میں رہ سکتے ہیں۔  اپنی انہی صلاحیتوں کے باعث یہ متعدد جگہوں پر ترکی اور اس کے حلیفوں کے لیے جنگوں کا پانسا پلٹنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ترکی ان کے ذریعے صرف محاذ جنگ پر ہی نہیں بلکہ سفارتی  محاذوں پر بھی اپنے مفادات کا دفاع کر رہا ہے۔

               ڈرون ایک بڑی وجہ سے جنگی حکمت عملیاں بدل رہا ہے ۔ یہ وجہ اس کی قیمت ہے۔ عموماً اس کو مار گرانے کے لیے جو میزائل موجود ہیں، ان کی قیمتیں ان کی نسبت خاصی زیادہ ہیں۔ آپ ذرا سوچیں اگر کسی فوج کو اسے مار گرانا ہو، اور اسے یہ بھی پتہ ہو کہ اس سے دشمن کا کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ نہ تو یہ مہنگا ہے اور نہ ہی اس میں دشمن کا کوئی فوجی سوار ہے، لیکن اس کو مار گرانا بھی بہت ضروری ہے، تو یہ اس کے لیے کتنا ذہنی دباؤ کا باعث ہوگا۔  اس کو مار گرانے پر ہی فوج کا اچھا خاصا خرچہ ہو رہا ہوگا۔

               بعض ماہرین اسے گن پاؤڈر اور جوہری ٹیکنالوجی کے بعد  تیسرا بڑا جنگی انقلاب کہہ رہے ہیں۔  اس  نے تو روایتی جنگی حکمت عملیوں کو بدل کر ہی رکھ دیا ہے۔ صدیوں سے فوجیوں کی تعداد جنگوں کی حکمت عملی کا ایک بڑا حصہ تھی۔ پچھلی ایک صدی سے اس میں ٹینک اور ہتھیاروں سے لیس   گاڑیاں وغیرہ بھی شامل ہو گئی  تھیں۔ لیکن ڈرون کے آگے سب بے کار سے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ آپ ایک جنگی میدان کا ذرا تصور کریں۔ ایک بڑی فوج ٹینکوں، بندوقوں اور توپوں کے ساتھ دشمن پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دشمن نے شہد کی مکھیوں کے چھتے کی صورت حد نظر سے اوپر بہت سے ڈرون بھیجے۔ لیں بھئی ان ڈرونز نے ابابیل کی صورت حملہ کیا اور دشمن کی فوج تہس نہس ہو کر رہ گئی۔ اب اگر فوج مر مرا کر تمام  کے تمام ڈرونز تباہ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئی تو دشمن کا کیا بگڑا؟  نہ تو کوئی جانی نقصان ہوا نہ ہی زیادہ مالی۔ البتہ اس طرف کی پوری فوج برباد ہو کر رہ گئی۔

               دنیا کی تمام بڑی فوجی طاقتیں انہی تمام عوامل کو ذہن میں رکھ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دے رہی ہیں۔ یہ ہتھیار کس قدر بھی سفاک ہے، فوجوں کی مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی نیسکوم براق نامی ڈرونز کو تیار کرنے  میں مصروف ہے۔ یہ مجبوری ہی ہوتی ہے جو انسان کو اس راستے پر چلاتی ہے، جس پر وہ چلنا نہیں چاہتا۔ انسانیت کا ڈرونز  ٹیکنالوجی کی ترقی کا سفر بھی یہی ایک سفر ہے۔ اس سے صرف چند ہاتھ ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ صرف چند ہاتھ!

متعلقہ عنوانات