دوست ہے وہ پیٹھ پر آئے گا نیزہ تان کر
دوست ہے وہ پیٹھ پر آئے گا نیزہ تان کر
بھائی ہے تو جا مری رسوائی کا سامان کر
ورنہ سیدھے سے ادا کر دے شرافت کا خراج
اور آزادی کی خواہش ہے تو بڑھ اعلان کر
تجھ کو حق تلفی کا یہ احساس کیوں ہونے لگا
سارے اندھے بانٹتے ہیں ریوڑی پہچان کر
آ گلے مل درد کا رشتہ ہے اپنے درمیاں
اتنے زوروں سے نہ ہندوستان پاکستان کر
میرے غم خانے کو جیسے تو نے جل تھل کر دیا
مہرباں بادل کسی صحرا کو نخلستان کر
روشنی رہتی ہے تیری شیش محلوں میں سدا
چاند پیارے میری کٹیا پر کبھی احسان کر
اس نے پوچھا تک نہیں پرویزؔ ہو کس حال میں
میں تو اس کے پاس آ بیٹھا تھا اپنا جان کر