دوسری عورت
اس نے دسمبر کے زرد اور تھکے ماندے سورج کو اونچے پلازوں اور بالاخانوں کے آس پاس بڑے تاسف سے دیکھا، اس کی کلائی کی گھڑی کی سوئیاں پانچ کے ہندسے کو چھو کر گزر گئی تھیں۔آج کا دن بھی کل کی طرح ذلیل و خوار ہوتے گزر گیا ۔ یہ سوچتے ہوئے اندر کی ساری کڑواہٹ اس کے منہ تک آگئی ۔ اس نے سڑک پر رینگتے ہوئے ٹریفک کی جانب نفرت سے دیکھتے ہوئے تھوک دیا ۔ مال کے پُررونق سٹاپ پر سردی کے باعث رش کم ہوتا جا رہا تھا ۔ اس کی ٹانگیں یونہی کھڑے کھڑے جیسے زمین میں گڑ گئی تھیں، دن بھر لوگوں کی آڑھی ترچھی نظروں نے اس کا انگ انگ چھّید ڈالا تھا ۔ ایسے میں کالے فیشنی برقعے نے اسے کافی حد تک تحفظ دے رکھا تھا۔یہ بھی نہ ہوتا تو وہ اب تک شکوک و شبہات کی زہر بجھی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑی ہوتی مگر مجبوریوں نے اسے ڈھیٹ بنا دیا تھا ۔ مَر مَر کے جینے کا ڈھنگ آگیا تھا سو جیئے جا رہی تھی ، جیتی نہ توکیا کرتی۔۔۔ ؟اس کی موت دو معصوم بچوں کی بھی تو موت تھی؟ وہ اپنے ساتھ انہیں ہر گز نہیں مارنا چاہتی تھی۔زندگی کی اسی بند گلی سے چکر کاٹ کر وُہ چُپ چاپ ایک خار زار پر اتر آئی تھی،جس پر چلتے چلتے اس کے پاؤں میں آبلے پڑگئے اور جسم چھلنی ہو چکا تھا۔ اب اسے اندر اور باہر سے کسی قسم کی چبھن کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔سٹاپ پر دائیں بائیں چاروں طرف ہر عمر کے جوان مرد اور عورتیں سواری کے انتظار میں بے چین تھے ،ہر کوئی جلدی میں تھا۔ بس، ویگن ، رکشہ، ٹیکسی۔۔۔ جس کے سینگ جس سواری میں سماتے گھس جاتا تھا۔ بعض بڑی عمر کے مرد سٹاپ سے پرے ہٹ کر یوں پُر سکون اور لاتعلق کھڑے تھے جیسے انہیں کہیں نہیں جانا تھا۔ ان میں سے چند ایک ریوڑی، مونگ پھلی والے کی ریڑھی کے گرد بے فکری سے کھڑے جگالی میں مصروف تھے۔ کچھ دوسرے کونے میں کھڑی بوسیدہ سی سائیکل پر لٹکتے باسی اخبار دیکھ رہے تھے۔
وہ سٹاپ پر کھڑے کھڑے تھک کر چور ہو چکی تھی ۔ سورج چوباروں اور مسجد کے بلند وبالا کنگروں کے عقب میں چھپ گیا تھا، تاہم اس کی پیلی روشنی ابھی تک اطراف میں موجود تھی۔ جہاں وُہ کھڑی تھی اس کے دائیں جانب چند فٹ کے فاصلے پر دو الٹرا ماڈرن لڑکیاں انگریزی رسالے کی ورق گردانی کرتی ہوئی چہک رہی تھیں، کبھی کبھی ان کے کھوکھلے قہقہے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے تھے۔چال ڈھال سے دونوں ملازمت پیشہ لگتی تھیں۔ سٹاپ پر وقفے وقفے سے جی ٹی ایس کی بسیں ، کوچیں ، رکشے اور ٹیکسیاں آتے جاتے گہما گہمی پیدا کر دیتی تھیں۔ سردی دھیرے دھیرے بڑھتی جا رہی تھی ۔ سٹاپ پر سواریاں لمحہ بہ لمحہ بدل رہی تھیں۔۔۔انتظار۔۔۔انتظار۔۔۔مگر اسے کس کا انتظار تھا ؟ ہاں۔۔۔ اسے بھی تو کسی تگڑی سواری کا انتظارتھا، لیکن وقت تھا کہ نکلا جارہا تھا، اسے رہ رہ کر موٹر سائیکل والے جوان پر سخت غصہ آرہا تھا، جس نے صبح بازار کو آتے ہوئے عقب سے ہارن بجا کر اسے متوجہ کیا تھا ۔ لباس اور شکل وصورت سے وہ کسی کھاتے پیتے گھر کا نظر لگتا تھا۔ذ را آگے جا کر اس نے موٹر سائیکل روک لی ۔ وہ بھی چپ چاپ اس کی بغل میں ہاتھ ڈال کر یوں بیٹھ گئی تھی جیسے اس کی نو بیا ہتا ہو۔نوجوان کی قربت میں ایک البیلی خوش بو کا احساس اس کے جسم و جاں کو معطر کیے دیتا تھا۔
’’او میں کیابِلّو کتھّے رہندے جئے؟‘‘۔۔۔ یہ اس کا پہلا سوال تھا۔
’’پچھّلے محلے کی چوتھی گلی میں ‘‘۔۔۔
’’ہائے کڈی سوہنی آواز اے تہاڑی۔۔۔ نالے جانڑاں کِتھّے جئے؟‘‘۔۔۔
’’جہاں تم لے چلو وہی اپنا ٹھّکانہ ہو گا۔‘‘
’’پر آپڑاں تے پہلاں ای کوئی ٹھکانہ نئیں۔۔۔ چلو چھّیمے دا پتہ کرنیاں، جئے مل گیا تے‘‘ اس نے جیسے خود کلامی کے انداز میں بات جاری رکھی۔
’’ کیہہ ناں ہیگااے تہاڑا؟‘‘
’’جی۔۔۔ زاہدہ‘‘
’’تُسیں تے پڑھے لکھے لگدے جئے‘‘۔
’’جی ! بھلے دنوں میں میٹرک کر لیا تھا‘‘۔
’’تے ہُنڑ کیہہ ہویا جئے؟‘‘۔
’’شرابی اور عیاش خاوند سے نجات کے نتیجے میں دو بچے اب میری ذمہ داری ہیں۔‘‘
’’اوئے ہُوئے ہُوئے!ایہہ تے چُوکھّی زیادتی اے تہاڈے نال۔۔۔لے بھئی ! نیک پروین جے آپڑاں یار چھّیمالبھّ گیا ناں۔۔۔تے نیریاں موجاں۔۔۔نئیں، تے۔۔۔‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔ موٹر سائیکل ایک ویران اور سیلن زدہ گلی کے خستہ حال مکان کے سامنے جارُکی ۔ اس نے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا پھر ذراسا دھّکا دیا تو دروازہ کھل گیا اور وُہ اندر ۔ پانچ منٹ کے صبر آزما انتظار کے بعد وُہ بے شرم ہنسی ہنستے ہوئے برآمد ہوا۔
’’لے بھئی! آپڑاں تے کم ہو گیا اے بلّو۔۔۔میرا مطلب اے وے کہ ایدھر تے پہلاں ای‘‘۔۔۔ اس نے بات پلٹ دی۔
’’اصل وچ چھّیمے دے پِنڈوں بچے آگئے نیں۔۔۔ فیر سہی، پر ایہہ گھر یاد رکھیں، بھلیں ناں۔۔۔تے اے لِیہہ پھّڑ کرارے نوٹ تے جا۔۔۔ شابشے‘‘
بیس روپے سُلگتے انگاروں کی طرح اس کی ہتھیلی پر رکھ کر نوجوان اندر چلا گیا اور وُہ دن بھر دہکتی انگیٹھی بنی اجنبی گلیوں میں بھٹکتی پھری تھی۔۔۔یہ سوچتے ہوئے اس نے نوجوان کے خیال پر نفرت سے تھوک دیا۔
اب بس سٹاپ پر رش مزید کم ہو گیا اور خنکی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا، اخبار والا بھی سائیکل گھسیٹتا کسی تنگ گلی میں گم ہو چکا تھا۔ شام کا ملگجا اندھیرا چاروں اور سے روشنی کو اپنی بکل میں چھپانے لگا۔ دونوں ماڈرن لڑکیاں ابھی تک ایک دوسرے سے چہلیں کرنے میں مصروف تھیں لیکن اس کی اداسی سرد شام کی ساتھ ساتھ گہری ہوتی جارہی تھی۔
’’وہ خالی ہاتھ گھر جا کر کیا کرے گی؟‘‘ اسے بار بار یہ سوال تنگ کرنے لگا۔
’’معاً سرخ رنگ کی ایک کار سٹاپ کے سامنے آکر رُکی ۔ گہرے سبز چشمے کے پیچھےاس کی ویران آنکھوں میں بجلی چمکی ۔ کار کے اسٹیرنگ پر بیٹھا ٹھگنا مرد سگریٹ سُلگائے اس کی جانب معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا ۔ اس کے برقعے کے اندر اتھّل پتھّل ہونے لگی۔ ابھی وُہ جست بھرنے کو ہی تھی کہ عقب میں کھڑی لڑکیاں بجلی کی تیزی سے کار میں بیٹھ کے یہ جااوروہ جا ۔۔۔ اوروہ سٹاپ پر یوں کھڑی رہ گئی جیسے کسی نے برقعے کے ساتھ کپڑے بھی اتار کراسے بیچ چوراہے میں ننگاکھڑا کر دیا ہو۔اس نے سرخ کار میں بیٹھے اپنے عیاش خاوند کو پہچان لیا تھا۔