دوسری ناہید

مجھے فلمی دنیا کے گورکھ دھندوں میں بھٹکتے ہوئے ایک عرصہ ہو چلا تھا اور اس جنون کو کسی بھی پل قرار نہ ملتا تھا۔ صبح جلد بیدار ہونا اور رات کو جلد لُوٹنا فلمی دنیا کے نصاب میں نہ تھا، مجھے اس مدرسے اور اس کے نصاب نے اب تک شادی جیسی کل وقتی مشقت سے دُور رکھا تھا۔ جو لوگ فلمی دنیا کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس دُنیا میں فلم ڈائریکٹر اور آرٹسٹ سے لے کر ٹی بوائے تک سب کے سب روزانہ اپنے حصے کی کمائی جیب میں ڈال کر گھر جاتے ہیں یا پھرادھار کھاتے چلاتے ہیں۔ میں کالج کے بعد اپنی ابتدائی عملی زندگی کا بیشتر حصہ فلمی دنیا کی نذر کر چکا تھا اور مجھے اس میدان میں بُہت سے اچھے، برے لوگ ملے تھے لیکن جب تجمل سے دوستانہ ہوا تو ہم فلمی دُنیا میں ایک سے گیارہ ہو گئے اور شہر کے ممتاز فلم سٹوڈیوز میں پہلی بار باضابطہ دفتر بنا کر ہوائی روزی کمانے لگے۔ یہ پاکستان فلم انڈسٹر ی کے عروج کا وہ زمانہ ہے جب موبائل فون ابھی نہیں آئے تھے اور کمپیوٹر ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ ہمارا کام سٹوڈیومیں زیر تکمیل فلموں کے لیے لگائے گئے سیٹوں پر فلمی یونٹس کو لائٹنگ اور دیگر انواع و اقسام کی تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ کام کی زیادتی کی دنوں میں ہمیں اکثر رات بھر بھی کام کرنا پڑتا تھا۔ میرا تو آگے پیچھے کوئی تھا نہیں مگر تجمل کی ہمیشہ شامت آئی رہتی۔ جب بھی فون کی گھنٹی بجتی، میں تجمل کو چھیڑتا۔ ’’لو آگئی تمہاری سختی۔۔۔‘‘


اور وہ جب بھی فون اٹھاتا تو دوسری طرف بیوی اس کی خبر گیری شروع کر دیتی۔


اب تجمل کے بارے میں، مَیں آپ کو کیا بتاؤں؟ یوں تو اس کی عمر بیالیس سال تھی مگر اس نے اپنے بانکپن کو بڑھاپے جیسی بیماری سے اب تک بچا رکھا تھا۔ یہ شادی بھی اس کی دوسری تھی اور تھی بھی محبت کی۔ جبھی تو تجمل کو گھر سے باہر رات گزارنا مشکل ہو جاتا تھا۔ پرلے درجے کا عاشق مزاج اور دل پھینک قسم کا انسان واقع ہوا تھا، جس کا خمیازہ اکثر مجھ کو ہی بُھگتنا پڑتا تھا۔۔۔ فلم انڈسٹری میں اس کی آمد کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی عوامل کار فرما تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ تجمل کے پا س ضرور کوئی’’گیدڑ سنگی‘‘ ہے۔ جس نے اسے بہت ہی ’’چالو‘‘ بنا ڈالا ہے یا پھر اس کی شخصیت میں ایسی مقناطیسیت ہے کہ جسے چاہے اپنی طرف کھینچ لے۔ پوری فلم انڈسٹری میں شیطان کی مانند مشہور تھا۔ آدمی تھاتو بڑے کام کا لیکن چکما دینے پر آتا تو اس کا کوئی ثانی بھی نہ تھا اور تو اور اکثر مجھے بھی گولی کرا جاتا۔ یوں انتہائی مصروفیت کے دنوں میں، مَیں بیٹھا ایمرجنسی کالیں بُھگتتا اور تجمل میاں مزے سے گل چھّڑے اڑاتے پھرتے۔ اگلے روز ایسی زور دار کہانی اگلتے کہ فلمی کہانی کار کیا لکھے گا۔۔۔؟ اس سب کے ساتھ ساتھ، اس جی دار انسان کی ایک خوبی ہرخامی پر بھاری تھی۔ ’’کام کرو مگر زندگی بھی انجوائے کرو۔‘‘ یہ اس کی زندگی کا بنیادی ماٹو تھا۔


تجمل کی دوسری بیوی سے شاید میں ایک آدھ بار ہی ملا تھا۔ پہلی بار اس وقت جب ابتدائی دنوں میں تجمل نے مجھے کھانے پر بُلایا تھا۔ اس کی بیوی ناہید نہایت خوش شکل، سگھّڑ اور تعلیم یافتہ تھی اور تجمل سے عمر میں پورے دس سال چھوٹی تھی۔ ناہید نے اس روز کھانا اس قدر اچھا بنایا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی تعریف کرنا پڑی اور دوسری بار کسی ایمرجنسی میں تجمل کو سٹوڈیو لینے آئی تھی۔۔۔ اس کے علاوہ ناہیدسے جب بھی کبھی ملاقات ہوئی، ٹیلی فون پر ہی ہوئی، پہلے پہل ناہید صرف تجمل کا ہی پوچھتی اور فون رکھ دیتی۔ پھر کبھی کبھی کوئی پیغام بھی دے دیتی کہ ’’آئیں تو کہیں گھر فون کر لیں‘‘وغیرہ۔۔۔ وغیرہ‘‘یہاں تک کہ ناہید کی معمول کی گفت گُوسے مجھے یہ اندازا ہونے لگا جیسے اسے تجمل پر شک سا ہو گیا ہے۔ اکثر یوں لگا جیسے کچھ کہنا یاکچھ پوچھنا چاہتی ہو مگر ہمت نہ کر پاتی ہو اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں دونوں میاں بیوی کے معاملے میں خواہ مخواہ الجھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ یوں بھی عائلی زندگی کا میرا تجربہ تو بالکل ہی صفر تھا۔


ایک دوپہرانتہائی مصروفیات کے دنوں میں ناہید کا فون آیا، پہلے پوچھا، ’’تجمل ہیں۔۔۔؟‘‘ میں نے کہا، ’’حسبِ معمول کام پر ہیں، برابر والے اسٹوڈیو میں ٹیم کے ساتھ لائٹنگ کروا رہے ہیں۔۔۔، خیریت۔۔۔؟‘‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر غیر متوقع طور پر کہنے لگیں، ’’نوید صاحب! آپ ان کے دوست ہیں اور کام بھی اکٹھے کرتے ہیں۔۔۔ مگر آپ انہیں سمجھاتے کیوں نہیں۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا۔۔۔ خیرتو ہے؟‘‘ ’’کچھ دنوں سے تجمل بالکل بدلے بدلے سے ہیں۔ کام سے گھر آکر اکثر باہر چلے جاتے ہیں اور پھر آدھی آدھی رات کو لوٹتے ہیں۔‘‘، ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ میں کسی مناسب وقت تجمل سے بات کروں گا، آپ تسلی رکھیں۔‘‘ اور فون بند ہو گیا۔


میں نے اس روّیے کو غیر اہم اور وقتی جان کر تجمل سے کوئی تذکرہ نہ کیا۔ ویسے بھی کام کی زیادتی کی وجہ سے ہماری آپس کی گفتگو کم ہی ہوا کرتی تھی۔ دن کو گرمی کی وجہ سے شام اور رات کے اوقات میں کام زیادہ ہوا کرتا تھا۔ سٹوڈیو میں گرمیوں کی شامیں اور راتیں نسبتاً زیادہ رنگین اور شان دار ہونے لگیں۔ چہل پہل بڑھ گئی۔ دن قدرے ویران اور سُنسان سے رہنے لگے مگر رابطے اور بُکنگ کے لیے دفتر کھلا رہتا تھا اورمیں ڈیوٹی پر ضرور موجودہوتا۔ تقریباً ہفتہ بھر ناہید کا فون نہ آیا۔ پھر ایک کڑکتی دوپہر، میں رَت جگے کی وجہ سے کرسی پر اونگھ رہا تھا۔ تجمل ابھی نہیں آیا تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی نے مجھے جھّنجھوڑا۔ جلدی سے فون اٹھا یا تو دوسری طرف ناہید کی پریشان کُن آواز سنائی دی۔


’’نوید صاحب! وُہ کہاں ہیں۔۔۔؟‘‘


مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا، ’’آجی۔۔۔ وہ معلوم نہیں۔۔۔ ابھی تک آئے نہیں دفتر۔۔۔‘‘


’’آپ کی اس معاملے میں تجمل سے کوئی بات ہوئی۔۔۔؟‘‘


ایک تو میں ویسے ہی اس اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھا اور دوسرے ناہید کے اس سوال کا معقول جواب بھی میرے پاس نہ تھا۔


’’شاید بازار سے دفتر کے لیے سامان خرید کر آتے ہی ہوں گے۔۔۔‘‘ میں نے کہا


’’ہاں آپ اپنے دوست کی خوب طرف داری کرتے ہیں مگر اسے سمجھاتے نہیں۔‘‘ اب میں خاموش تھا!


’’اور دیکھیں آپ بھی تو ہیں۔۔۔ خوش شکل اور جوان ہیں، شادی بھی نہیں کی، ہر وقت کام پر رہتے ہیں، تجمل سے چھوٹے ہیں مگر انتہائی ذمہ دار۔ آپ کے بارے میں، مَیں نے کبھی کسی سے کوئی ایسی ویسی بات بھی نہیں سُنی! مجھے آپ سے بس یہی شکایت ہے کہ آپ اپنے دوست کو سمجھاتے نہیں۔۔۔ آپ اس قدر بے خبر بھی نہیں کہ اپنے دوست کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں؟‘‘


میں نے کہا، ’’کیا مطلب میں سمجھا نہیں؟‘‘


وہ بولی، ’’آپ کے دوست آج کل سٹوڈیو کی کسی نئی تتلی کے عشق میں مبتلا ہیں اور آپ کو پتا ہی نہیں۔۔۔‘‘ ناہید کے شک نے سچ کا رُوپ دھار لیاتھا مگر میں نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا،’’ناہید آپ فکر نہ کریں، اگر ایسی ویسی کوئی بات ہے بھی تو آج اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ذرا آلینے دیں۔۔۔ تجمل کو میں ان کی خبر لیتا ہوں۔ آپ خواہ مخواہ جھگڑا کر کے اپنے گھر کا ماحول خراب نہ کریں۔‘‘


’’نہیں میں اسے رنگے ہاتھوں پکڑوں گی۔ بس ذرا موقع کی تلاش میں ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے غصے میں فون بند کر دیا گیا۔ اس روز تجمل دیر سے آیا۔ گاڑی سامان سے لدّی پھّندی تھی اور تجمل سارے کا سارا پسینے میں شرابور، مجھے پہلی بار اس کی حالت پر بہت پیار آیا کہ بے چارا کتنا محنتی اور ذمہ دار ہے لیکن ناہید اس کے بارے میں جانے کیا کیا گمان کرتی رہتی ہے؟ یہ سوچتے ہوئے میں بھی گاڑی سے سامان اتارنے لگا کیونکہ اس کے فوراً بعد برابر کے سٹوڈیو میں نئی فلم کے سیٹ پر کام شروع ہونا تھا۔ میں نے کینٹین کے چھوٹے کو بُلایا اور چائے بسکٹ کا آرڈر دے کر تجمل سے گپ شپ شروع کر دی۔


’’یار تم نے اچھا کیا ایڈوانس میں سامان لے آئے ورنہ اگلے دو دنوں میں خاصی مشکل ہوتی۔۔۔‘‘ میں نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا، ’’ہوں۔۔۔ میں نے کل رات ہی لسٹ بنا لی تھی، مجھے پتہ تھا دونوں فلموں کے سیٹ لگنے ہیں۔‘‘ تجمل نے پانی کا گلاس حلق میں انڈیلتے ہوئے جواب دیا۔


’’یا ر وُہ گھر سے ناہید کا فون آیا تھا، تمہارے بارے میں آج کل خاصی پریشان ہے، گھر پر وقت نہیں دے رہے کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے یونہی بات چھیڑ دی۔


’’تمہیں کیا معلوم یہ بیویاں کس قدر شکی مزاج ہوتی ہیں، اگر تمہاری بھی کوئی ہوتی تو پوچھتا۔۔۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا۔


’’بھئی! میں تو ابھی تک اس نعمت سے محروم ہوں۔۔۔‘‘ میں نے قہقہہ لگایا۔


’’کہو تو شادی کے لیے کہیں بات چلاؤں۔۔۔؟‘‘ تجمل نے چھیڑ نے کے انداز میں کہا، ’’بخشو بی بلی، چُوہا لُنڈورا ہی بھلا۔۔۔‘‘ اورہم دونوں ہنسنے لگے۔ ہوٹل والا چائے بسکٹ کی ٹرے رکھ کر جانے کے لئے مڑا تو تجمل نے اسے پانی کا جگ پکڑا دیا۔


’’یار ویسے یہ چکر کیا ہے۔۔۔؟ ناہید کیوں شک و شبہ میں مبتلا نظر آتی ہے؟‘‘ میں نے کُریدا۔۔۔


’’کچھ نہیں یار! تم نے سُنا نہیں۔۔۔؟ بد سے بدنام بُرا، ذرا کوئی خوب صورت لڑکی میرے پاس سے گزرجائے تو ناہید کوتو جیسے دورہ سا پڑ جاتا ہے۔۔۔ آسمان سرپہ اٹھا لیتی ہے۔۔۔‘‘ تجمل صفائی پیش کرنے لگا۔


’’پھر بھی کچھ تو ہو گا نا جس پہ ناہید اتنی سیخ پا ہے۔۔۔‘‘ میں نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔


’’یار وُہ نہیں شّنوڈانسر جِسے بھٹی نے نئی فلم کے لئے انگیج کیا ہے۔۔۔؟ گھر پر اس کا فون کیا آگیا کہ ناہید نے تو جیسے ہٹلر کا رُوپ دھار لیا۔‘‘ تجمل نے دانت نکوستے ہوئے کہا۔


’’ارے واہ شّنوکو بھی پِٹا لیا۔۔۔؟ مان گئے استاد، چاروں اور یونہی تو نہیں چرچے تمہاری گیدڑ سنگی کے۔۔۔؟‘‘ میں نے اسے رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


’’ارے یار! پرسوں لیٹ نائٹ شوٹنگ کے بعد گھر تک لفٹ کیا دے دی کہ شّنوتو پیچھے ہی پڑگئی۔۔۔ پتہ نہیں گھر کا نمبر کہاں سے ہاتھ آگیا کم بخت کے۔۔۔ ضرور جمّی نے دیا ہو گا، اپنے نمبر ٹانکنے کے لئے آلینے دو سالے کو ابھی پوچھتا ہوں!‘‘ تجمل نے لال پیلا ہوکرکہا۔


’’مگر استاد۔۔۔ تم تو، نو لِفٹ وِد آؤٹ گفٹ‘کے قائل ہو۔۔۔ پھریہ لفٹ۔۔۔؟‘‘ میں نے استفہامیہ نظروں سے گھورا۔


’’سمجھاکروناں یار۔۔۔!‘‘ تجمل نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ میری ہنسی چھوٹ گئی۔


آئندہ چند روز ہماری ٹیم کے لیے بے حد مصروف تھے۔ فلموں کی لگاتار شوٹنگ کے لیے رات دن کے سیٹس پر کام بُک ہوچکا تھا۔ ان ڈور شوٹنگ کے سیٹ زیادہ لگنے تھے اس لیے رات دن کام ہورہا تھا۔ اس روز بھی حسبِ معمول آفس میں ٹیلی فون ڈیوٹی کے دوران ڈائجسٹ کی کسی مہّماتی کہانی میں الجھا تھا کہ فون کی گھنٹی نے چوکنا کر دیا۔ فون اٹھا یا تو دوسری جانب ناہید تھی۔


’’دیکھا میں ناں کہتی تھی کہ ایک دن آپ کے دوست کو رنگے ہاتھوں پکڑلوں گی۔۔۔ آج آپ بھی دیکھیں گے کہ میں اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں۔۔۔؟ میں دس منٹ میں ٹیکسی لے کر پہنچ رہی ہوں، تیار رہّیے گا۔۔۔‘‘ اور ٹھّک سے فون بند۔


میں اس عجیب و غریب صورت حال سے یکدم پریشان ہوگیا، جانے آج تجمل کی شامتِ اعمال کیا گُل کِھلاتی ہے؟ لگتا ہے تجمل کے ساتھ ساتھ آج بے چاری شّنو کی بھی خیر نہیں۔۔۔ اب اگر میں ناہید کے ساتھ جاؤں تب مصیبت، نہ جاؤں تب بھی عذاب، کیا کروں۔۔۔؟ ابھی میں اسی تَذبَذب میں تھا کہ باہر ٹیکسی کا ہارن بجا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑا ہوا اور آفس بند کر کے ناہید کے ساتھ ہو لیا۔


ناہید نے راستے بھر مجھ سے کوئی بات نہ کی مگر جب ٹیکسی ڈرائیور کو ادھر ادھر مڑنے کا کہتی تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے اس نے ذرا سی بھی غلطی کی تو ناہید اسے جان سے مار دے گی۔ میں سخت الجھن میں تھا۔ طے شُدہ پروگرام کے مطابق اس وقت تجمل کو اپنی ٹیم کے ساتھ باری سٹوڈیو کے سیٹ پر ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ ہماری ٹیکسی کا رُخ الٹی سمت میں تھا۔۔۔ میرا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ دل کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔ کوئی آدھ گھنٹہ نیو ٹاؤن کی سڑکوں اور گلیوں میں بھٹکنے کے بعد ناہید نے ٹیکسی نسبتاً ایک ویران گلی میں رکوائی۔ نیچے اتر کر ٹیکسی کو فارغ کر دیا گیا۔ ہم ایک نو تعمیر شُدہ بنگلے کی بغل میں کھڑے تھے۔


’’بنگلے کا مین گیٹ اندر سے بند ہے۔ آپ نے کمپاؤنڈ وال پھلانگ کر اندر سے گیٹ کھولنا ہے اور میں اندر آجاؤں گی۔۔۔ اور دیکھئے شور شرابہ نہ ہونے پائے ورنہ وُہ ہوشیار ہو جائیں گے۔۔۔‘‘ ناہید کسی ماہر سُراغ رساں کی طرح اپنا پلان بتا رہی تھی۔ ادھر ڈر اور تجسّس کے ملے جلُے اثرات سے میراوجود لرزنے لگا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آنے والے لمحات میں کیا ہونے جا رہا ہے؟


’’چلئے نا جلدی کیجئے۔۔۔ سوچتے کیا ہیں۔۔۔؟‘‘ ناہید بولی۔ اللہ جانے اس لمحے مجھ میں کہاں سے طاقت عُود کر آئی اورمیں ایک ہی جست میں اندر کود گیا۔۔۔ میں نے جاگرز پہنے ہوئے تھا، کوئی شور نہ ہوا اور نئے رنگ و روغن کی وجہ سے آہنی گیٹ بھی چوں چراں کے بغیر ہی کھل گیا۔ ناہید آہستگی سے اندر آگئی اور گیٹ بند کر دیا۔ صحن اور برآمدہ پھلانگنے کے بعد سامنے دو کمروں کے دروازے تھے۔ ناہید نے پہلے بائیں جانب کا دروازہ دھکیلا تو وُہ اندر سے بند تھا پھر جب دوسرے دروازے کی طرف بڑھی تو مجھے بھی قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اس نے دروازے پر آہستگی سے دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اور ہم دونوں اندر۔۔۔ پھر میں نے عقب میں دروازے کی چٹخنی لگنے کی آواز سُنی، کمرے میں گہری تاریکی تھی۔۔۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے بیڈ پر ابھی تجمل اور شنو بے خبر غلطاں وپیچاں پڑے ہوں گے اور ناہید سینڈل اتار کر، ان پر برس پڑے گی۔۔۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو ناہید کی بانہوں کے معطر حصار میں گرفتار محسوس کیا۔ تھوڑی دیر بعد دو جسم آپس میں بیڈ پر تادیر الجھتے رہے اور پھر ایسے بے خبرہوگئے کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا۔۔۔


بہت دیر کے بعدجب ناہید بالوں میں برش کرتی باتھ روم سے باہر آئی تو وہ پہلے والی نہیں بلکہ مجھے کوئی دوسری ناہید نظر آنے لگی تھی۔۔۔ اور میں؟ میں بھی شاید پہلے والا نوید نہیں رہا تھا۔ شرم سے میری نگاہیں فرش میں گڑی جارہی تھیں اورکوئی بات بنائے، نہ بن پارہی تھی۔۔۔ ایسے میں چاروں اورچھائی گہری خاموشی گُفتگو کرنے لگی تھی۔۔۔!