دوسرے باؤ جی
جب اگست 1947ء میں بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم عمل میں آئی توادھرسے جوق در جوق لُٹے پُٹے خاندان نوزائیدہ پاکستان آئے تو ان قافلوں کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی آگئے جن کے لیے خاک و خون کے دریا عبور کر کے پاکستان آنا محض ایک ایڈو ینچر تھا۔ ان میں انبالہ کے سنیل، شنکراور موہن بھی شامل تھے۔وہ تینوں کالج تک اکٹھے پڑھے تھے اور آپس میں بہت گہرے دوست تھے ۔پیدائشی طور پر ہندو تھے مگر جانے کیوں وہ مہاجرین کی صورت پاکستان میں داخل ہوکر اس کے بننے کاتماشا دیکھنا چاہتے تھے یا پھر ان کے دل میں کچھ اور تھا۔ تاہم ان تینوں کا کوئی خفیہ منصوبہ تھا ضرور، جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے اتنا بڑا فیصلہ کرلیا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مہاجرین کی صورت میں سفر کے دوران ہندو اور سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں ان کی جان بھی جاسکتی تھی۔گھر والوں کو ان کے کسی منصوبہ کی خبر نہ تھی مگرتینوں کو لمبی سیرو تفریح کے بہانے گھر سے نکلنے کی اجازت مل گئی۔
تینوں نے اپنے تمام شناختی کوائف گھرپہ چھوڑے، سادہ سے کپڑے پہنے ، بُرے وقتوں کے لیے سونے کی ایک ایک انگوٹھی جیب میں رکھ لی تاکہ انتہائی ضرورت کے وقت کام آسکے اور پھر مہاجرین کے کسی بڑے قافلے میں شامل ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ٹرین کے ایک لمبے سفر کے بعد وہ جالندھر کے قریب پھگواڑہ کے بڑے مہاجر کیمپ پہنچے ۔جہاں اجڑے پُجڑے مہاجروں کی کسمپرسی اور خستہ حالی دیکھ کر ایک بار تو ان کے جی میں آیا کہ گھر کو لوٹ چلیں مگر پھر شاید ایڈوینچر کا شوق دوبارہ غالب آگیا۔ پھگواڑہ سے مہاجرین کوٹرین کے ذریعے پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا۔وہاں دودن رکنے کے بعد تیسرے روزایک ریل گاڑی مراد آباد سے آئی جس میں بمشکل پاؤں رکھنے کی جگہ مل پائی جو دو روز تک توراستے میں در پیش امکانی حملوں کے خطرے کی وجہ سے اسی اسٹیشن پرکھڑی رہی۔ پھر ایک صبح ریل گاڑی کو لائن کلیئر کا سگنل دیا گیا اور وہ پاکستان کی جانب رینگنے لگی ۔وہ لمحات دیدنی تھے۔۔۔مہاجرین کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اورسب کی جان میں جان آئی۔ سارا دن مسلسل سفر کرنے کے بعد جب راستے میں رات پڑگئی تو ایک اسٹیشن پر رُکتے ہی اچانک مسلح بلوائیوں نے ٹرین پر تلواروں، برچھیّوں اور توڑے دار بندوقوں سے حملہ کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مردوں، عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا گیا۔ نہتے سنیل ، شنکر اور موہن تینوں، زخمیوں اور لاشوں تلے گرم گرم خون میں لت پت گھنٹوں دم سادھے پڑے رہے اور محض سانس لیتے رہے کہ زندہ رہنے کا بس یہی اک طریقہ تھا۔موہن نے بُہتیرا کہا کہ لعنت بھیجیں ایسے ایڈوینچر پر ، جس میں جان کے جانے کا اندیشہ ہو مگرسنیل اور شنکر دُھن کے بہت پکے تھے ۔ ویسے بھی اب انہیں پاکستان کے دھندلے سے آثار،بچ جانے والے مسلمانوں کے چہروں پر دکھائی دینے لگے تھے۔ اب ان کے لئے وہاں سے واپس جانا اتنا آسان نہ تھا ۔
اگلے ہی روز ریل گاڑی پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئی تو ان بنّیوں کی نگاہوں نے عجیب منظر دیکھا ۔ لُٹے پُٹے، خاک و خون میں نہائے زخموں سے چُور تمام مُسلے پاکستان کی سر زمینِ پر قدم رکھتے ہی سجدہ ریز ہوکر گِڑ گڑا رہے تھے۔ ان کے چہرے اپنے ہی خون پسینے اور آنسوؤں سے تر تھے۔ ان تینوں نے بھی اسی میں عافیت جانی اور زمین پر ماتھے ٹیک دیئے تاکہ ان پر کسی کو شک نہ گزرے۔ اپنے لُٹے پُٹے بہن بھائیوں کے استقبال کوآنے والے لاہوری عوام کاٹھاٹھیں مارتا سمندر والہانہ جذبات لیے موجود تھا،یہی سب کے خوابوں کا پاکستان تھا۔ جس کی شہادت لاہور ریلوے اسٹیشن پر برابر کے ٹریک پر کھڑی ایک مال گاڑی تھی، جو اپنے سواروں کے لہو کے ساتھ ہندوستان سے لکیر کھینچتی پہلے پھگواڑہ سے جالندھرپھر امرتسر، اٹاری اور واہگہ کے راستے لاہور پہنچی تھی۔ جس کی مسافر بوگیاں اب خالی ہوچکی تھیں ۔ لیکن بغیر چھت کی مال بوگیوں کو خالی کرنے کی ہمّت شاید ابتک مُسلوں میں پیدا نہ ہوسکی تھی۔ ان بوگیوں میں مردوں اور عورتوں کی سر بُریدہ برہنہ لاشیں، گردنیں، ٹانگیں ، بازو اور بازوؤں سے جڑی آسمان کو دیکھتی نیلی اور پیلی مہندی رنگی ہتھیلیاں بہت کچھ کہہ رہی تھیں،انسانوں کے ربّ سے فریاد کررہی تھیں اور سوال کر رہی تھیں کہ تونے تو انسان کو ایک ہی ماں باپ سے ایک جیسا پیدا کیا مگر اس نے مذہب ، ذات اور رنگ ونسل کے کیسے کیسے فرق پیدا کرلیے اور ایک دوسر ے پر کیا کیا ظلم ڈھانے لگا۔۔۔؟ مگر تینوں نے ایک دوسرے سے نظر یں چراتے ہوئے یوں مُنہ پھیرلیئے جیسے اس ڈراؤنی حقیقت سے ان کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہ ہو۔۔۔دوسری جانب پلیٹ فارم پر زندہ انسانوں کا ، امیدوں بھرا سمندر بہہ رہا تھااوروہ تینوں بھی اس کا حصّہ بن گئے۔
مہاجرین کی بحالی کے لیے متعین سرکاری اہل کار ورضا کار مرد اور عورتیں مہاجرین کے ہمراہ ان تینوں کو بھی لاہور کے والٹن کیمپ لے آئے۔ جہاں انتظامیہ کے سامنے تینوں نے اپنے آپ کو سگّے بھائی ظاہرکرتے ہوئے اپنے نام سلیم ، ندیم اور جمیل لکھوائے اورٹسوے بہاتے ہوئے بتایا کہ ان کے ماں باپ بٹوارے میں کہیں بچھڑگئے ہیں، معلوم نہیں اب وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ انتظامیہ نے ان کااندراج کرلیا اور انہیں والٹن کیمپ میں ایک خیمہ الاٹ کردیا ۔ مہاجرین کا والٹن کیمپ کیا تھا ؟ سانس لیتے ، خواب دیکھتے، ٹوٹے پھوٹے انسانوں کا گودام !جس میں بچھڑنے والوں کی یاد میں سسکیا ں اور آہیں بھی تھیں اورپاکستان کی سر زمینِ پر آنکھ کھولنے والے نومولود بچوں کی کلکاریاں بھی ۔اچانک دم توڑجانے والوں کے جنازے بھی تھے اور ان بنّیوں ایسے بے فکرو ں کے قہقہے بھی! کیمپ میں ہر وقت ہاؤ ۔۔۔ہُوسی مچی رہتی تھی۔ اب سنیل، شنکر اور موہن تینوں، سلیم ، ندیم اور جمیل بن چکے تھے ۔جو روزانہ صبح کیمپ سے کھا پی کرنکلتے اورسارا دن دور تک پھیلے مہاجرین کے خیموں میں اپنے والدین کو ڈھونڈھنے کے بہانے ، لڑکیاں تاڑتے، کبھی کیمپ آفس میں آویزاں زخمیوں اور گم شدگان کی طویل فہرستیں دیکھتے رہتے اور کبھی ریلوے اسٹیشن پر ادھر ادھرمڑگشت کرتے نظر آتے ۔ ایک دن تینوں حسبِ معمول اپنے خیمے سے نکل کر کیمپ آفس کے باہر لگی گمشدگان کی فہرست دیکھنے لگے۔ آفس کے اندر اور باہر آنے جانے والوں کا خاصا رش تھا۔ دفتر کی کھڑکی کے قریب ہونے کی بدولت تینوں نے رضا کاروں کے درمیان ہونے والی گفت گو یوں سُنی ۔
’’ پورے تین ہفتے لگ گئے۔۔۔ ٹرینوں میں آئی لاشیں دفنانے میں‘‘ ایک رضا کار کہہ رہا تھا۔
’’ لاشوں کی ایسی بُری حالت تھی کہ کسی کی شناخت بھی ممکن نہ رہی تھی ‘‘ دوسرے نے کہا
’’ بھئی ، بہت ظلم ڈھایا گا ندھی جی کے چیلوں نے۔۔۔ ‘‘ ایک اور بھاری سی آواز نے کہا۔
’’ کمی ادھر والوں نے بھی نہ چھوڑی ۔۔۔لاشوں سے بھری ٹرینوں کے آنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔۔۔ اور سنا ہے ادھر سے پہلے ہی ہلّے میں جو ہندو نکل گئے سو نکل گئے۔۔۔بعد میں کسی کو بھی زندہ سلامت نہ نکلنے دیا گیا۔۔۔جو جہاں گِرا اسے وہیں دفن کردیا گیا۔‘‘ پہلے والے رضا کار نے تفصیل بتائی ۔
’’ یار و۔۔۔ظلم دونوں طرف ہوا ہے ۔۔۔انسان نے انسان کو مارا ہے۔‘‘
’’ لیکن اگر قتلِ عام کی ابتدا ہندوستان نہ کرتا تو یہاں بھی کچھ نہ ہوتا۔۔۔‘‘ ایک اور بولا تھا۔
تینوںیہ گفتگو برابر سُن رہے تھے۔ بظاہر ا ن کی نگاہیں دیوار پر چپکی ہوئی فہرستیں دیکھ رہی تھی مگر پاکستانی رضا کاروں کی گفتگو نے ان کی سماعتوں کو مسخّر کرلیا تھا۔ اس مکالمے کے بعد وہ زیادہ دیر وہاں کھڑے نہ رہ سکے ۔ تینوں خاموشی سے چلتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی جانب نکل گئے۔ وہ ابھی ریلوے اسٹیشن پہنچے ہی تھے کہ انہیں چوبی بینچ پر ایک بزرگ تنہا بیٹھے نظر آئے جوان تینوں کو مسلسل اپنا ئیت بھری نگاہوں سے تکے چلے جاتے تھے۔ تینوں کوخاصا تجسّس ہوا۔
’’ خبطی ہے شاید۔۔۔‘‘ جمیل نے کہا اور تینوں بے پرواہی سے اپنی ترنگ میں آگے بڑھ گئے۔
’’ لگتا ہے ا س کا بھی کوئی پیاراکھوگیا ہے۔۔۔ ‘‘ ندیم نے خیال ظاہر کیا ۔
’’ ہمیں یوں گھور رہا تھا جیسے ہم ہی اس کے سگّے ہوں؟‘‘ سلیم نے گمان آرائی کی مگر کسی نے اس بات کو آگے نہ بڑھایا۔
اگلے روز جب وہ دوپہر کو دوبارہ ریلوے اسٹیشن پہنچے تو وہ بزرگ، اسی حالت میں بینچ پر تنہا، اداس اور پریشان بیٹھے تھے۔ تینوں کو دیکھ کر ان کی ویران آنکھوں کے صحرا میں ایک طرح کی چمک آجاتی تھی۔ باباجی کی آنکھوں کی کشش نے انہیں اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ تینوں ان کے ساتھ بینچ پر جا بیٹھے۔
’’ باؤ جی ! آپ کو کس کا انتظار ہے ، کیا تقسیم میں آپ کا بھی کوئی اپناکھو گیا ہے ؟ ‘‘ ندیم نے فطری اپنائیت سے پوچھا مگر جواب میں گہری خاموشی چھائی رہی۔
’’ باؤ جی ! آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ ‘‘ سلیم نے بھی اپنی سی کوشش کی۔
اب کے باباجی نے تینوں کی طرف اپنی انگشتِ شہادت اٹھائے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ مجھے تو معلوم نہیں لیکن اگر تمہیں پتہ ہوتو تم ہی کچھ بتاؤ؟۔۔۔ جمیل کواپنائیت کے اک بے نام سے احساس کے تحت جُھر جھری آگئی اور اسے اپنے باؤجی یادآگئے۔وہ سوچنے لگا’’ اگر ایسی حالت میں اس کے باؤ جی ہوتے تو۔۔۔؟‘‘ اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکا ۔سلیم نے ان دونوں کوکُہنی مار کے اٹھایا اور وہ کیمپ کی طرف چل دیئے۔
ان کے شب و روز یونہی گزرنے لگے۔ یوں ایک ماہ بیت گیا ، کیمپ کے آدھے سے زیادہ مہاجرین کو آباد کیا جاچکا تھا۔ زخمیوں سے ہسپتال اورمیانی صاحب سمیت آس پاس کے قبرستان بھی بھر چکے تھے ۔ہندو ستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان پاکستان کے طو ل و عرض میں پھیلنے لگے۔ نئے مہاجرین کے آنے کاسلسلہ تھمنے لگا تھا۔سرحد پار سے آمدہ اطلاعات سے معلوم ہوا کہ بہت سے دوسرے مسلم خاندان ہندؤوں اور سکھوں کی ظالمانہ کارروائیوں سے ڈر کر نقل مکانی سے بازرہے۔ والٹن کیمپ سے مکمل خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر پہلے آباد کیا جارہا تھا۔اب کیمپ میں صرف مرد ہی مرد رہ گئے تھے۔ بہت دنوں بعد ایک صبح تینوں پھر گھومتے گھامتے اسٹیشن کی طرف جا نکلے اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بابا جی ، بدستور اسی بینچ پر تنہا بیٹھے ایک جانب کو تکے جارہے تھے۔ جب وہ تینوں قریب پہنچے تو باباجی ان کو دیکھ کر نہال ہوگئے۔ اب کے انہوں نے حلق سے نامانوس سی آوازیں نکال کر اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا ۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں پاتے۔ بس بے نام سے اشارے کرتے چلے جاتے ۔ان کی ذہنی حالت بھی کچھ ٹھیک نہ لگتی تھی۔
یہ جو ہم اب تک ایک ٹینٹ میں پڑے ہیں، اس کا سبب ہمارا نا مکمل پریوار ہے‘‘ جمیل بولا۔
’’مطلب۔۔۔؟‘‘ سلیم نے متجسّس ہوکر دریافت کیا۔
’’سنو، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے۔‘‘ جمیل نے ذرا ہٹ کر سرگوشی کی۔
’’اگر ہم ان بابا جی کو کیمپ آفس لے جاکر اعلان کردیں کہ ہمیں ہمارے باؤ جی مل گئے ہیں تو ہماری آبادکاری بھی آسان ہوجائے گی۔۔۔‘‘
’’ہاں، خیال تو اچھا ہے ۔۔۔‘‘ دونوں نے جمیل کو داد دی ۔
’’ مگر ۔۔۔ یہ بابا جی تو کچھ بولتے ہی نہیں ‘‘ ندیم بولا۔
’’یہ تو اور اچھی بات ہے ۔۔۔کسی بھی طرح کی تفتیش نہ ہوسکے گی‘‘۔ سلیم نے جواب دیا۔
وہ تینوں پھر بابا جی کی طرف متوجہ ہوئے۔ با با جی کی آنکھوں میں بدستو ر اپنائیت کے چراغ روشن تھے۔ وہ تینوں کو دیکھتے ہوئے مسکرائے چلے جارہے تھے۔ ان کی داڑھی تو نہ تھی مگرشیو ضروربڑھا ہوا تھا۔ قد لمبا مگر جسم قدرے کمزور تھا۔ کِھلتی ہوئی رنگت اور چوڑی پیشانی کی وجہ سے محسوس ہوتا تھا کہ جوانی میں بڑی بارُعب شخصیت کے مالک رہے ہوں گے۔ اس وقت وہ ستربہتّر کے پیٹے میں تھے۔
’’باؤ جی ، کیا حال ہیں آپ کے ؟ ‘‘ سلیم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ بابا جی نے جواباً ویسی ہی آواز نکال کر کچھ کہنے کی کوشش کی۔
’’آئیں آپ ہمارے ساتھ چلیں ! ‘‘ سلیم نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
تینوں باؤ جی کو سہارا دیتے ہوئے کیمپ آفس لے آئے جہاں کیمپ انچارج کے علاوہ دو تین اہل کار کھاتہ رجسٹروں میں اندراج کررہے تھے۔
’’سر، ہمارے باؤ جی مل گئے ‘‘ ۔سلیم نے خوش ہوتے ہوئے اعلان کیا۔ تینوں اب تک اچھے فنکار ثابت ہوئے تھے ان کے چہروں سے شادمانی جھلک رہی تھی۔ کیمپ انچارج اور کارکنان بھی ان کی خوشی میں شریک ہوگئے۔
’’باؤ جی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی ، ان کا طبی معائنہ بے حد ضروری ہے‘‘۔ جمیل نے پریشانی ظاہر کی۔
’’ٹھیک ہے فی الحال آپ بابا جی کو اپنے خیمہ میں لے جائیں ،ہم ڈاکٹر کو بلواتے ہیں۔‘‘
تینوں خوشی خوشی باؤ جی کولے کر خیمہ میں آگئے اور اپنے اپنے انداز میں ان کی دلجوئی کرنے لگے۔ کیمپ میں گھومتے پھرتے ایک حجام سے ان کا شیو بنوایا، ہاتھ منہ دھلوائے۔ انہوں نے باؤ جی کے ساتھ مل کر دو پہر کا کھانا کھایااوروہ جونہی لیٹے تو انہیں فوراً نیند آگئی۔
’’یوں لگتا ہے جیسے باؤ جی ایک طویل عرصہ کے بعد سوئے ہیں‘‘۔ ندیم نے سلیم اور جمیل کو دری پرپیرپسارتے دیکھ کر کہا۔
’’ہاں یار واقعی‘‘ جمیل نے تائید کی۔ سلیم چُپکے سے اٹھا اور اشارے سے دونوں کو باہر لے آیا اور پھروہ دائیں بائیں خیموں کی طویل قطاروں کی درمیانی راہداری میں ٹہلنے لگے۔
’’باؤجی کے آنے سے ہمیں اپنے منصوبے پر عمل کرنے میں آسانی ہوجائے گی‘‘۔ سلیم کسی ماہر مہم جُو کی طرح کہنے لگا۔
’’کل ہمیں کسی بہتر جگہ منتقل کردیا جائے گا۔ باؤ جی ، ہمارے کسی بھی منصوبے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کا بہت خیال رکھنا ہوگااور ان کا دل جیتے رہنا ہوگا۔ ابھی وہ بول نہیں سکتے ، لگتا ہے جیسے کسی گہرے صدمے سے دوچار ہیں مگر جلد ہی بول پڑیں گے۔ شاید ان کا پریوار بھی تقسیم کے ہنگاموں میں کھوگیا ہے اور انہیں ہم تینوں میں اپنے بچے نظر آتے ہیں۔ جب بولنے لگیں گے تو ہمیں ان کے اصل حالات کی مدد سے اپنے منصوبے پر عمل کرنے میں مدد مل سکے گی۔‘‘ یہاں تک کہہ کر سلیم نے راز داری سے ندیم اور جمیل کوا پنے منصوبے کی جزّیات بتائیں جس پردونوں بہت خوش ہوئے کیونکہ اب وہ اپنا کام کر کے جلد ازجلد ہندوستان لوٹ جانا چاہتے تھے۔ انہیں رہ رہ کر اپناگھر یادآرہا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے انہوں نے دیکھا کہ بیشتر ٹینٹ خالی پڑے تھے۔ باقی ماندہ خیموں میں سوتے جاگتے مردہی مرد نظر آتے تھے۔ وہ گھنٹہ بھر کی مڑ گشت کے بعد واپس پہنچے تو باؤ جی ایک طرف کو کروٹ لیے بدستور گہری نیند سو رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد کیمپ میں سہ پہر کی چائے تقسیم ہونے لگی۔تینوں اپنے چائے کے مگ لیے کیمپ سے ذرا فاصلے پربڑی سڑک پر بنے ریلوے پل کے جنگلے کے ساتھ جاٹِکے۔سڑک پر تانگے ، ریڑھے اور سائیکلیں پیدل چلنے والوں کا اک اژ دھام تھا، جو ادھرُ ادھر آجارہا تھا۔
’’یار! یہ سالا پاکستان بھی توبالکل اپنے بھارت کے مافک ہے۔ ویسے ہی لوگ اور ان کی ایک جیسی لائف، پھر ان سالوں کو الگ ہونے کی کیا پڑی تھی؟ ایک ہی جھّٹکے میں لاکھوں کٹ مرے ہیں۔‘‘ سلیم نے پل سے نیچے رینگتے انسانوں کے ہجوم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو یہ مُسلے زیادہ غریب اور بے حال دِکھتے ہیں‘‘۔ جمیل نے رائے دی ۔
’’اب دیکھتے ہیں یہ مُسلے اپنے ملک کو کیسے چلاتے ہیں ؟ ‘‘ ندیم بولا۔
’’یار ! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ لاہور ایک بڑا اور گنجان آباد شہر ہے۔اگر ہم یہیں رہتے تو زیادہ بہتر ہوتا ، معلوم نہیں، دوسرے کسی شہر میں ہم اپنے مقاصد پورے کر بھی پائیں گے یانہیں؟‘‘ سلیم نے چائے کا آخری گھونٹ لیا۔
’’ہاں یار، تمہارے منصوبے کے مطابق تو ہمیں سرحد کے قریب ہی ہونا چاہیے ‘‘ جمیل بولا۔
’’یہ بھی ہوسکتا ہے ہمیں یہیں کہیں ایڈجسٹ کرلیا جائے‘‘ ندیم نے خیال ظاہر کیا۔ پھر تینوں بلا ارادہ اسی ادھیڑ بُن میں کیمپ کی طرف واپس چل دیئے۔ جب وہ اپنے خیمے کے قریب پہنچے تو کیمپ کا ڈاکٹر باؤ جی پر جھکا ان کا بلڈ پریشر چیک کررہا تھا اور ایک معاون پاجامہ اونچا کر کے باؤ جی کی بائیں ٹانگ پر لگی چوٹ دیکھ رہا تھا مگر باؤ جی کے حلق سے ابھی تک کوئی قابلِ شناخت لفظ نہ نکل پایا تھا۔ معاون ان کے زخم کی صفائی کر کے مرہم پٹی کرنے لگا۔ ڈاکٹر فارغ ہوا تو خیمے سے باہر کھڑے ان تینوں کی طرف متوجہ ہوا۔
’’اچھا آپ ہیں ان کے بیٹے ؟ بھئی مُبارک ہو آپ کے بچھّڑے ابّاجی مل گئے ۔‘‘
’’بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب! اب ان کی طبیعت کیسی ہے ؟ ‘‘ سلیم نے پوچھا۔
’’سفر کے دوران ان کے سر پر گہرا زخم آیا ہے اور شاید سر کی چوٹ یا تقسیم کے دوران کسی گہرے صدمے سے ان کی یاداشت اور بولنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے بتایا۔
’’ڈاکٹر صاحب ، باؤجی ٹھیک تو ہوجائیں گے ناں؟‘‘ اب کے جمیل نے پوچھا۔
’’ہاں مگر ایسا ہونے میں ابھی وقت لگے گا‘‘۔ ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہفتہ پہلے انہیں ڈائریا ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے کمزوری بڑھ گئی ہے اور ہلکا سا بخار بھی ہے ، آپ یہ دوائیں کیمپ ڈسپینسری سے لے کر باقاعدگی سے دیں اور ان کے آرام کا خیال رکھیں‘‘۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر اپنے عملے سمیت آگے بڑھ گیا ۔ باؤ جی تینوں کو شفقت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور گہری نیند کے بعد اب کافی ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔
اگلی صبح انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ آج اس کیمپ کے بقیہ تمام مہاجرین کو لائل پورکے دھوبی گھاٹ کیمپ منتقل کیا جارہا ہے اور آپ سب کی آباد کاری وہاں کی انتظامیہ کرے گی۔ چنانچہ قیدیوں والی بس کے ذریعے کیمپ میں موجود تمام مہاجرین کو ڈرائیور اور عملے کے چند ارکان کے ساتھ لائل پور روانہ کردیا گیا۔ان کا سارا سفر اونگھتے جاگتے گزرا ۔سہ پہر کے قریب بس جب لائل پور پہنچی تو قطار اندر قطار لگے خیمے میدانِ عرفات کا ساسماں پیش کررہے تھے۔ مہاجرین کے خیمے زیادہ اور جگہ کم پڑنے کی وجہ سے قریب میں واقع آریا سماجیہ سکول کے میدان میں بھی خیمے لگائے جارہے تھے تاکہ تمام مہاجرین کو فوری عارضی چھت مہیا کی جاسکے۔
ان تینوں کوباؤجی کے ساتھ وہاں رہتے ہوئے تین ہفتے ہو چلے تھے۔ باؤجی کی طبیعت بھی بہت حدتک سنبھل چکی تھی۔ وہاں باؤجی کے تفصیلی طبّی معائنے کے دوران کیمپ کے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بٹوار ے میں کسی انتہائی شدید صدمے کی وجہ سے وہ قوتِ گویائی کھوبیٹھے ہیں ، جو کسی ایسے ہی شدید جذباتی حادثے میں اچانک واپس بھی آسکتی ہے۔ تاہم یہ تینوں دوست ڈاکٹر کی بات سن کر اندر ہی اندر خوش تھے کہ اب تک سب کچھ ان کی سوچ اور منصوبے کے عین مطابق ہوتا چلا جارہا تھا۔ ان کی تو ہمّا تی پرورش اپنی کرشّمہ کاری کے خوب جو ہر دکھانے لگی تھی۔ ان کے نزدیک نئے دیش کے نئے باؤ جی ان کے لیے بڑے بھاگوان ثابت ہوئے تھے۔ تھوڑے ہی دنوں میں انہیں قرب و جوار کی رام گلی میں ہندوؤں کا چھوڑا ہوا ایک مکان الاٹ کردیا گیا ۔ یہ حقیقت انتظامیہ کے ریکارڈ پر تھی کہ ان کی والدہ اوربہنیں بٹوارے کے ہنگاموں میں بچھڑگئے تھے، نہیں معلوم زندہ بھی ہیں کہ نہیں! تاہم ان تینوں نے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے والدہ اور دو بہنوں کی جھوٹی سچی تفصیل درج کرادی تھی ،جس پر انتظامیہ کی طرف سے ملک کے تمام مہاجر کیمپوں میں تفصیلات بھیج کر ان کے اہلِ خانہ کی تلاش شروع کردی گئی تھی۔
رام گلی کا وہ گھر کیا تھا، ان تینوں کے لیے واقعی نئے دیش پاکستان میں گویا ان کا چھوٹا سا ہندوستان تھا جوہندوستانی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ وہی طرزِ تعمیراور وہی بُوباس یہ سب دیکھ کر تینوں کِھل اٹھے تھے۔ پہلے انہوں نے جلدی سے کونے کا ایک کمرہ باؤجی کے لیے صاف کیا اور انہیں مسہری پر لٹا دیا۔وہ تھکن اور بے آرامی کی وجہ سے جلدی سوگئے۔ پھر تینوں نے گھر کا تفصیلی جائزہ لیا۔ گھر میں ضرورت کی ہر شے موجود تھی۔ صرف رسوئی کے لیے کچھ برتن اور کھانے پینے کے سامان کی ضرورت تھی۔ ضروری جھاڑ پُونچھ کے بعد تینوں ایک کمرے میں سستانے کے لیے اکٹھے بیٹھ گئے۔
’’یار ! پر بّو ہم پہ کتنا مہربان ہے، مُسلوں کے دیش میں ہمیں ،ہمارے گھر جیسا ماحول مل گیا ہے‘‘ ۔ ندیم سے اپنی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔
’’اوے آہستہ بول، بڈّ ھابول نہیں سکتا ، پر سُن تو سکتا ہے؟‘‘ جمیل نے اسے کُہنی مار کر کہا
’’میں تو اس بات پہ حیران ہوں کہ مُسلوں نے اس گھر کی کسی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور تو اور اوپر والے بڑے کمرے میں بھگوان جی کی مورتی بھی صحیح سلامت رکھی ہے۔‘‘ سلیم خوشگوار حیرت سے کہہ رہا تھا۔
اور ایک سالے ہم ہیں کہ جنہوں نے ہندوستان میں مُسلوں کے خون کی ندیاں بہادیں۔۔۔ ہزاروں کو پاکستان تو کیا، امرتسرتک بھی نہ آنے دیا مگر سرحد کے اس پار تو کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ یہ ہماری رام گلی، دو فرلانگ کے فاصلے پر مندر گلی اور گروُ جی کا مندراپنی اصلی حالت موجودہے۔۔۔‘‘ ندیم اپنی رُو میں کہے چلا جارہا تھا۔۔۔
’’اَبے اوشنکر! تیرے میں تو لگتا ہے پاکستان آتے ہی کسی مولوی کے پران بس گئے ہیں۔۔۔ ہم یہاں تیرے بھاشن سننے نہیں آئے ۔فوراً اپنا کام کر اور یہاں سے چلتابن۔ اگر کسی کو ذراسی بھی بِھّنک پڑگئی تو تینوں گھنٹہ گھر چوک میں ، گھڑیال کے گھنٹے کی طرح لٹکے ہوں گے !‘‘ سلیم نے اندیشوں کو ہوا دیتے ہوئے کہا۔
’’اس چِٹ میں ضروری سامان کی تفصیل لکھی ہے، تم دونوں بھی دیکھ لواگرکچھ اور یا دآئے تو وہ بھی شامل کرلو، میں ذرامُوت لُوں۔‘‘ سلیم انہیں ایک سِلپ تھما کر غسل خانے چلاگیا۔ دونوں نے رسوئی میں جاکے سامان کی فہرست کا جائزہ لیا اور بازار جانے کے لیے تیار ہونے لگے۔ سلیم غسل خانہ سے برآمد ہوا تو اس نے فہرست میں نہانے کا صابن بھی شامل کروادیا۔
’’یار ہم نے اب تک ایک اہم مسئلے کی طرف دھیا ن ہی نہیں دیا‘‘ ۔ سلیم نے فکر مندی سے کہا۔
’’وہ کیا ؟‘‘ دونوں ایک ساتھ بولے۔
’’ہمیں اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے بڑھیّا کپڑوں کی بھی تو ضرورت پڑے گی ۔ انتظامیہ اور رضا کاروں سے ملنے والے کپڑوں میں سے ایک بھی چیز اس قابل نہیں۔۔۔ ‘‘ سلیم نے راز داری سے کہا۔
’’تو پھر کیا کریں۔؟‘‘ جمیل نے پوچھا۔
’’استاد ، لگتا ہے، اب ہمیں جمیل کی انگوٹھی بیچنا پڑے گی‘‘۔ ندیم نے شگفتگی پیدا کرنے کے لیے شُرلی چھوڑی۔
’’میری کیوں۔۔۔ سب سے پہلے تمہارے والی کا سودا کریں گے‘‘ ۔جمیل نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
’’ارے تم دونوں رنڈیوں کی سودے بازی بند کرو ، پہلے میری انگشتری بِکے گی اور وقت آنے پر تم دونوں کی انگشتر یا ں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔‘‘ سلیم بھی اسی لہر میں شامل ہوگیا۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے ڈاکٹر باؤ جی کو لمبا ہی آرام دینے والے ہیں۔‘‘ ندیم نے آگے بڑھ کر باؤ جی کے کمرے میں جھانکا تو وہ بدستور گہری نیند سورہے تھے۔
’’اَبے ، کیوں تنگ کرتا ہے بُڈھے کو ، سولینے دو اچھی طرح سے ،پھرکون جانے ایسی نیند ملے نہ ملے؟‘‘ سلیم نے معنی خیز انداز میں کہا اور تینوں کِو اڑ بھیڑ کر گلی میں نکل آئے۔
’’صرافہ بازار میں انگوٹھی بیچنے سے ہمیں یہاں سونے کے بھاؤ اور بازار میں چھوٹے بڑے جیولرز کا بھی اندازہ ہوجائے گا ‘‘ سلیم نے کہا۔
’’پہلے انگشتری بیچتے ہیں پھر شاپنگ کریں گے‘‘۔ جمیل نے رائے دی۔
’’اگر تمہاری انگوٹھی بِک رہی ہوتی تب تم ایسا نہ بولتے‘‘۔ ندیم نے پھر چوٹ کی۔
’’میرے خیال میں ہمیں امدادی رقم سے چھوٹی موٹی شاپنگ کر کے سنار کے پاس جانا چاہیے ورنہ وہ سالا خالی ہاتھ تینوں کولفنگا سمجھے گا۔‘‘ سلیم بولا۔
’’واہ استاد! لگتا ہے مُسلوں کے دیش کا پانی تجھ پہ کچھ زیادہ ہی اثر کرگیا ہے‘‘ جمیل بولا۔
’’اور تیرے پہ تو، یہاں کے پانی کا الٹا ہی اثر دِکھتا ہے ‘‘ ندیم نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔اسی نوک جھونک میں تینوں نے پہلے مین بازار اور سبزی منڈی سے ضروری شاپنگ کی اور پھر صرافہ بازار کا رخ کیا۔ پہلی دکان میں داخل ہوتے ہی ایک خرانٹ قسم کے سنار نے تینوں کو سرسے پاؤں تک گھورا مگر بولا کچھ نہیں۔پہلے انگوٹھی الُٹ پَلٹ کر دیکھی اور بولا ’’ مہاجر لگتے ہو۔‘‘ یہ سن کر تینوں خاموش رہے۔ سنار نے پیتل کے نفیس،چمکیلے تر ازو پر انگوٹھی کا وزن اورحساب کتاب کیا۔
’’جناب ، سونا خالص نہیں ، کاٹ کرنے کے بعد انگوٹھی کے یہ پیسے دے سکتا ہوں ‘‘ سنار چِٹ آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’بھائی جی ! آپ کا بہت شکریہ ہم ذرا آگے چل کر بھاؤ معلوم کیے لیتے ہیں‘‘۔
سلیم نے مشینی انداز میں سنار کے ہاتھ سے انگوٹھی لی اور تینوں دکان سے باہر آگئے۔ ندیم اور جمیل اس سنجیدہ کارروائی میں بالکل خاموش رہے۔ بازار میں پہلے چوک سے بائیں مڑ کر سلیم نے ایک اور دکان کا انتخاب کیا ۔ اب کے سنار تقریباًانہی کا ہم عمر تھا۔
’’بھائی صاحب، یہ انگوٹھی بیچنا ہے ‘‘ سلیم نے سنار کو انگوٹھی دکھاتے ہوئے کہا۔
سنارنے ایک نظر انگوٹھی کو دیکھا اور ترازو پر اس کا وزن کر کے نوٹ کیا اور تیزی سے حساب کے بعد رقم لکھ کر چٹ سلیم کی طرف بڑھادی۔
سلیم نے چِٹ ہاتھ میں لینے سے پہلے ہی جانچ لیا تھا کہ اس نے پہلے والے سنار کی نسبت درست وزن اور مناسب رقم لکھی ہے۔اس لیے سلیم نے بغیر کسی تّردد کے کہا ’’ ٹھیک ہے ‘‘ سنارنے تجوری سے رقم گنی اور سلیم کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’ ذرا گِن کے تسلی کرلیں‘‘ سلیم نے رقم دوبارہ گنی اور سنار کا شکریہ ادا کر کے تینوں باہر نکل آئے۔
’’اس دکان کا نقشہ اچھی طرح سے ذہن نشین کرلو، ہمیں شاید یہاں دوبارہ آنا پڑے۔‘‘ چند قدم چلنے کے بعد سلیم نے بائیں جانب صّراف کی ایک بڑی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سائن بورڈ پرجلّی حروف میں ’’ پنجاب جیولرز‘‘ لکھا تھاجِسے عام سائز کی تین دکانوں کو ملا کر ایک بڑا شوروم بنایا گیا تھا۔جہاں شیشے کے اس پار لَش لَش کرتے، انواع واقسام کے جواہرات جَڑے زیورات، آنکھوں کو خیرہ کیئ دیتے تھے۔ لمحہ بھر کے لیے سلیم کو اپنے انبالہ کا صّرافہ بازار یاد آگیاجہاں اس کا بچپن گزرا تھا اور جس کے بیچوں بیچ سے گزر کر ان کی آبائی حویلی آجایا کرتی تھی۔ایسے میں سکول کی چھٹیوں کے دوران جب مراد آبادسے اس کے تایا آجاتے تو مہینہ بھر کے لیے خوب عیش ہوجاتے۔۔۔
’’ابے او سنیل۔۔۔!!! میرا مطلب ہے سلیم صاحب، تمہارے ارادے مجھے ابھی سے ٹھیک نہیں دِکھتے۔۔۔پہلے ذرا تیاری تو کرلیں؟ ‘‘ ندیم نے سلیم کے خیالات کی رُو اتھّل پتھل کردی۔ تینوں مسکراتے ہوئے آس پاس کے بازاروں کا لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ مین بازار کوجانکلے ۔ بزازکی ایک بڑی دکان سے انہوں نے اپنے اور باؤجی کے لیے دو، دو قیمتی سوٹ خریدے اور شہر کے مشہور درزی’’لائل پور ٹیلرز‘‘ پر سِلنے کے لیے دے آئے۔ آخری آئٹم کے طور پر ’’لنڈن شوز‘‘ سے جوتوں کے چار نئے جوڑے خرید کر جب وہ لدّے پھّندے گھر پہنچے تو باؤجی صحن میں پڑی آرام کرسی پربے چینی سے ان کی راہ تک رہے تھے۔ ان کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر باؤ جی کی آنکھوں کے چراغ روشن ہوگئے۔
’’لگتا ہے باؤجی کو بھی ہماری طرح سخت بھوک لگی ہے‘‘ جمیل نے نعرہ لگایا۔
’’چلوتینوں ایک ساتھ مِل کر کھانا پکاتے ہیں‘‘ سلیم نے سامان رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، اس طرح کھانا جلدی پک جائے گا‘‘۔ ندیم نے کُرتے کے بازُو اوپر چڑھاتے ہوئے کہا ۔ ایسے میں ایک نے سبزی دھوئی، دوسرے نے چھیلی ، کاٹی اور تیسرے نے چُولہا جلا کر ہنڈیا چڑھائی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آدھ پون گھنٹے میں کھانا تیار ہوگیا اور سب نے مِل کر کھایا۔ کھانے کے بعد انہوں نے باؤ جی کو تمام شاپنگ دکھائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔
اب اٹھتے بیٹھتے تینوں کو ایک ہی فکر لاحق تھی ۔وہ بات بے بات منصوبے کی تمام ترتفصیلات اور جزّیات طے کرتے نظر آتے ۔ ایک ایک نقطے پر بحث کرتے رہتے ۔انہیں ہفتے بھر میں درزی سے کپڑے بھی مل گئے تھے۔وہ روزانہ چپکے سے ایک ایک کر کے اوپر والے بڑے کمرے میں جاتے اور نظر بچا کر بھگوان کے چرن چھّو آتے تھے یوں کہ باؤجی کو ان کے دھّرم کا پتہ نہ چلے۔اب تک تینوں نے بڑی احتیاط برتی تھی، ان کے خیال میں باؤجی اپنی بیماری اور کمزوری کے باعث کبھی سیڑھیاں چڑھ کر اوپرگئے ہی نہیں تھے۔اس لیے وہ گھر میں بھگوان کی مورتی کی موجودگی سے بے خبر تھے۔ خود تو وہ باؤجی کے سامنے نمازکیا پڑھتے مگرباؤ جی کو بھی انہوں نے ایسا کچھ کرتے کبھی نہ دیکھتا تھا۔ تاہم وہ باؤجی کوکٹّر مُسلا ہی سمجھتے تھے۔
تینوں نے بڑی سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے بعد آئندہ جمعہ کا دن منتخب کرلیا تھا۔ جمعہ کی نماز سے گھنٹہ بھر پہلے ان کا سفید گھوڑی جُتاتانگہ بڑی شان سے پنجاب جیولرز کے سامنے جارُکا تھا۔ نئے ملبوسات پہن کر باؤجی پہلی نظر میں علاقے کے رئیس اور تینوں رئیس زادے نظر آتے تھے۔ سلیم، باؤجی کے ساتھ بڑی شان سے آگے بیٹھا تھا۔ جمیل اور ندیم تانگے کی عقبی نشست سے آکر باؤجی کا ہاتھ تھام کے نیچے اترنے میں مدد کرنے لگے ۔ تانگہ وہیں رُکا رہا۔ شوروم میں پہلے سلیم داخل ہوا اور اس کے پیچھے باؤجی کا ہاتھ تھامے جمیل اور ندیم اندر داخل ہوئے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ جمعہ کی وجہ سے شوروم پر صرف دو ہی صراّف تھے کوئی بھی گاہک نہ تھا ۔ سلیم نے ہاتھ ملایا اور یوں آغاز کیا۔
’’اگلے ہفتے ہماری دو بہنوں کی رخصتی طے پائی ہے اور ان کے لئے ہمیں فوری تیار سیٹ چاہئیں‘‘۔
’’جناب ، اس سے بڑھ کرخوشی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟ ہمارے ہاں آپ کو ہر طرح کے جدید ڈیزائنوں میں تیار سیٹ مل جائیں گے۔‘‘کاؤنٹر کی دوسری جانب کھڑے ایک گورے چٹے سنار نے بڑی خوش دلی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ دوسرے نے مختلف شوکیسوں سے نت نئے ڈیزائنوں کے سیٹ نکال کر کاؤنٹر پر سجانا شروع کردئیے۔ ندیم، باؤجی کے ساتھ شانِ بے نیازی سے دوسری جانب رکھی کرسیوں پر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا ئے بیٹھ گیا۔ سلیم اور جمیل دکاندار کے سامنے رکھے سونے کے سیٹ اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔ دونوں نے آج خاص طور پر بچ جانے والی سونے کی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں۔ دکاندار نے ان سے پوچھے بغیر دوسرے ساتھی کو سوڈا منگوانے کا اشارہ کیا اور پانچ منٹ بعد لیمن سوڈے کے گلاس ان کے ہاتھ میں تھے۔
’’دیکھیں، رخصتی میں وقت بہت کم ہے اورہماری با پردہ خواتین بازار نہیں آسکتیں‘‘۔جمیل نے پہل کی۔
’’اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم چار پانچ سیٹ گھر کی عورتوں کو دکھا کر آج اورا بھی خرید لینا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘ سلیم نے سوڈا حلق سے نیچے اتارتے ہوئے، ایک نازک جملہ بولا۔
’’بھائی جان ! نماز کاوقت بھی قریب ہے۔۔۔ باؤجی اور ندیم کو یہیں چھوڑ کر ہم جلدی جلدی گھر والوں کودکھا آتے ہیں‘‘ ۔جمیل نے دکاندار کی تسلی کے لیے سلیم سے کہا۔’’ ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ سلیم نے دکاندار کی طرف امید افزا نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ جو ان کی آن بان سے پہلے ہی خاصا مرعُوب دکھائی دیتا تھا۔
’’جبح۔۔۔جی ہاں، کیوں نہیں۔۔۔یہ آپ کا اپنا شوروم ہے ۔‘‘ دکاندار نے ان کے والداور بھائی ندیم کی موجودگی کو ضمانت جان کر روائتی خوشی دلی برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’بس تو پھر یہی آٹھوں سیٹ کافی ہیں، امید ہے نصرت اور رانی کو ان میں سے چار پانچ ضرور پسند آجائیں گے۔‘‘ سلیم نے ذو معنی انداز سے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کاؤنٹر پر موجود دوسرے آدمی نے شنیل کے ایک چادر نما کپڑے میں، سرخ، نیلے اور سبز ویلویٹ کے خوبصورت ڈبوں میں سونے کے آٹھ سیٹ باندھنے میں مدد کی۔
’’سونا کیا بھاؤ چل رہاہے آج کل۔۔۔؟‘‘ سلیم نے ویسے ہی بات بنانے کی سعئ کی۔
’’او جناب، آپ پسند کروا لائیں، پھر جیسے کہیں گے کرلیں گے۔‘‘ دکاندار بولا۔
’’بھائی جان، ذراجلدی واپس آجانا باؤجی کو نماز کے لیے دیرنہ ہوجائے ‘‘ ۔ندیم نے سلیم اور جمیل کو شوروم سے باہر نکلتے دیکھ کر مخاطب کیا۔باؤجی پہلی بار ندیم کا نماز والا جملہ سن کر مضطرب نظر آئے مگر پھر شانت ہوگئے۔
سلیم اور جمیل زیورات لے کر تانگے میں روانہ ہوئے تو شوروم کے وال کلاک پر بارہ بج کر پینتیس منٹ ہورہے تھے۔ندیم نے اب تک بڑی کامیابی کے ساتھ باؤجی کو ایک جانب مصروف رکھا تھا اور انہیں کسی بات کی بِھّنک نہ پڑنے دی ۔کاؤنٹر پر دوسرا آدمی زیورات کے بقیہ ڈبے اٹھاکر شوکیسوں میں واپس رکھ رہا تھااور گورا چِٹا سنار کھاتہ رجٹرں کھول کر حساب لکھنے لگا ۔
’’بھائی جی ! آپ پنجاب کے کون سے علاقے سے ہیں؟ ‘‘ ندیم نے وہیں بیٹھے بیٹھے دکاندار کو مخاطب کیا۔
’’جی، ہمارے بڑے کئی سال پہلے لدھّیانے سے یہاں کاروبار ی دورے پر آئے تھے اور پھر یہیں رَس بس گئے ‘‘۔ اس نے اسی کھلے ڈُلے انداز میں جواب دیا۔
’’میرے خیال میں ، یہ اس پاک سر زمین کا کمال ہے، جو پاؤں پکڑ لیتی ہے ‘‘۔ ندیم نے مسکہ لگایا۔
’’جی ہاں اس میں تو شک ہی کوئی نہیں جناب۔۔۔‘‘ دُکاندار بولا۔
’’اور انشاء اللہ اب ہمارا آزاد وطن دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا‘‘۔ندیم بات سے بات نکالے چلا جارہا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت کے لیے دکاندار کو گفت گو میں مصروف رکھ سکے۔
’’ہمیں آپ کے یہاں زیورات کے ڈیزائن سب سے بڑھیا جدید اور خوبصورت لگے ہیں، میری بہنوں کو ضرور پسند آئیں گے‘‘۔ ندیم بولا۔
’’ویسے آپ لوگوں کو فوری کتنے سیٹ چاہئیں؟‘‘ سنار نے پوچھا۔
’’دونوں بہنوں کو کم از کم تین تین سیٹ تو دینے ہی ہوں گے۔‘‘ ندیم نے بے فکری سے سنار کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے باؤجی کی طرف رسماً دیکھ کر کہا، اس سمے گورے چِٹے سنار کے چہرے کی سرخی اور آنکھوں کی چمک میں اوراضافہ ہوگیا تھا ۔ ’’کچھ نہیں تو آج ڈیڑھ دو کلو سونے کی سیل تو کہیں نہیں گئی۔۔۔ جمعہ کا دن واقعی بہت مُبارک ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘سنار نے سوچا اور دوسرے لمحے نماز کا خیال آتے ہی گھڑیال کی جانب دیکھاجہاں سوا ایک بجا تھا۔
’’کیا آپ کے بھائی صاحب نماز سے پہلے آجائیں گے ؟‘‘ یہ دریافت کرتے ہوئے سنار کی نگاہیں ندیم سے چار ہوئیں۔
’’جی ہاں۔۔۔ سلیم اور جمیل بس آتے ہی ہوں گے۔۔۔ٹھہریں میں ابھی دیکھتا ہوں کہیں، پچھلے بازار میں ٹیلرکے پاس نہ رُک گئے ہوں؟‘‘
یہ کہتے ہوئے ندیم تیزی سے شوروم سے نکل کر سلیم اور جمیل کی سمت کچھ اس انداز سے لپکاکہ اس نے سنار کو کچھ کہنے سننے اور سوچنے کا موقع ہی نہ دیا۔ سنار کو یہ تسلی تھی کہ ایک باوقار رئیس ، باؤجی کی صورت میں اس کے سامنے بیٹھے تھے۔
’’ان کے بیٹے ابھی آجائیں گے اورآج اس کی تجوری بھردیں گے۔‘‘ ان بھلے وقتوں میں سونے کے زیورات کے چھ ڈبوں کی سیل کا نشہ ایسا نہ تھا جو سنار کے ہوش ٹِھّکا نے رہنے دیتا۔ندیم پنجاب جیولرز سے نکلتے ہی گلیوں گلیوں شارٹ کٹ کرتا ہوا سیدھا لاری اڈے پہنچا،جہاں لاہور کے لیے ’’ نندہ بس سروس‘‘ کی لاری بالکل تیار کھڑی تھی۔ سلیم اور جمیل کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ ندیم کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ دونوں نے بس کے درمیان میں تین والی سیٹ روک رکھی تھی۔ بس پہلے ہی بھر چکی تھی۔ ندیم کے بیٹھتے ہی کنڈیکٹر نے ڈرائیور کو سواریاں پوری ہونے کی اطلاع دی اور دوسرے ہی لمحے بس روانگی کا بُھو نپُو بجاتی ہوئی چل پڑی۔
ادھر پنجاب جیولرز کے گھڑیال نے ٹَن سے ڈیڑھ بجایا تب سنار کا ماتھا ٹَھّنکا۔اس کی چھّٹی حِس انگڑائی لے کر بیدار ہوئی تو اس نے قدرے فکر مندی سے باؤجی کی جانب دیکھا جو کرسی پر ٹیک لگائے بے خبر سو رہے تھے۔
’’میاں جی، آپ کا گھر یہاں سے ، کتنی دُور ہے ؟۔۔۔اور ابھی تک آئے کیوں نہیں آپ کے بچے۔۔۔؟؟‘‘ اس کے لہجے میں پریشانی کا عنصر نمایاں ہوگیا تھا۔ اپنے ساتھی کو وہ پہلے ہی جمعہ کی نماز کے لیے بھیج چکا تھا۔سنار اس وقت اپنا سرپیٹ کر رہ گیا جب با باجی ہڑ بڑا کر اٹھے اور اس کے استفسار پر الٹے سیدھے اشارے کرنے لگے اور گھگھّیاکر عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگے۔ اب سنار کی حالت دیدنی تھی۔ اس نے باہر نکل کر دیکھا مگر نماز کی وجہ سے پورا صرافہ بازار بند ہوچکا تھا۔ وہ نہ کسی کو بلاسکتا تھا اور نہ ہی شوروم بند کر کے جاسکتا تھا۔ اس کے پاس تو ہونے والی واردات کی فقط ایک ہی ضمانت با باجی کی شکل میں رہ گئی تھی اور وہ بھی گونگی! موقع کی نزاکت کا احساس ہوتے ہی سنارسٹپٹا گیا۔
’’اوباواجی۔۔۔کہاں گئے تمہارے کچھ لگتے۔۔۔ ؟جلدی بتاؤ ورنہ میں ابھی پولیس کو بلاتا ہوں۔۔۔‘‘سنار نے باؤجی کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑنا شروع کردیا ۔ باباجی اس اچانک اور غیر متوقع صورتحال میں انتہائی ذِلت آمیزسلوک پر تشّنج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سرپکڑ لیا تھااور ان کے نرخرّے سے نِیم بسمل بکرے کی سی آواز یں برآمد ہونے لگیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کے دیدے ابھی باہر کو ابل پڑیں گے ۔پھر انہوں نے ایک دلدُوز چیخ ماری اور رونا شروع کردیا۔ شاید اس لمحے انہیں قوتِ گویائی مل گئی تھی۔ سنار زخمی چیتے کی طرح کبھی اپنے سونے کے پنجرے سے باہر نکل کر ہونّقوں کی طرح دائیں بائیں دیکھتا اور کبھی اندر آکر ادھر سے ادھر بھٹکنا شروع کردیتا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ اللہ اللہ کر کے اس کا دوسرا ساتھی جب نماز پڑھ کر واپس آیا تو اس نے جلدی جلدی اپنے لٹنے کا مژدۂ جاں فزا سنا کرساتھی کو تھانے کی طرف دوڑایا۔تھوڑی ہی دیر میں انسپکٹردو پولیس والوں سمیت جائے واردات پرپہنچا تو باؤجی ہیجانی کیفیت سے باہر آچکے تھے اور وہ مسلسل روتے ہوئے کہے چلے جارہے تھے۔۔۔ ‘‘
’’اے پربُو ، میں تو باربار اپنوں ہی کے ہاتھوں لٹنے کے لیے زندہ رہ گیاہوں۔۔۔‘‘
’’او جناب ، آپ کا نام کیا ہے۔۔۔؟ ‘‘ پولیس انسپکٹر نے پہلا سوال کیا۔
’’کوتوال صاحب، میں سلیل چوہدری ہوں اور سنیل میرے چھوٹے بھائی انیل چوہدری کا بیٹا ہے ، میرا بچہ ہے مگرمجھے نہیں پہچانتا۔۔۔‘‘ با با جی نے تفصیلات بتانا شروع کیں۔ ایک پولیس والا بابا جی کا بیان لکھنے لگا۔
’’ مگر بزرگو۔۔۔یہ سنیل کہا ں سے آگیا؟ ابھی تو سلیم اور جمیل کی بات ہورہی ہے۔‘‘ زرگرنے جھّلا کر پوچھا۔
’’اعجاز صاحب، مجھے تو یہ سب لمبا ہی فراڈمعلوم ہوتا ہے ‘‘۔ انسپکٹر نے سنار سے کہا ۔
’’ بھائی وہ سلیم نہیں سنیل ہے، ہم ہندو ہیں اور سنیل میرا سگا بھتیجا ہے، دوسرے دو اس کے لنگوٹیے ہیں۔۔۔ ‘‘ با با جی نے سنار کوبتایا۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ واردات آپ ہی نے کروائی ہے۔۔۔ ‘‘ ایک پولیس والے نے روائتی انداز میں لقمہ دیا۔
’’صاحب جی ، اس واردات کا تو مجھے پتہ نہیں مگر جو واردات سنیل میرے ساتھ کر گیا ہے اس کی سنگینی کا آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ بابا جی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’اعجاز صاحب!تھانے چل کرانہیں بڑے تھانیدار کے سامنے پیش کرتے ہیں۔۔۔یہ وقوعہ میرے بس سے باہر لگتا ہے ۔‘‘ انسپکٹر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
پنجاب جیولرز کے سامنے نمازیوں اور صّرافہ بازار کے دکاندار وں کا اک ہجوم سا جمع ہوگیا تھا۔ ہر کوئی زرگراعجاز سے اظہارِ ہمدردی کررہا تھا۔ تینوں پولیس والے بابا جی کولے کر شوروم سے باہر آئے تو سفید گھوڑی والا وہی کوچوان واردات کا سُن کر خودہی چلا آیا تھا۔
’’تھانیدار صاحب، میں ان بزرگوں کو تین بیٹوں سمیت رام گلی سے یہاں تک لایا تھا۔۔۔‘‘کوچوان خود ہی بول پڑا۔
’’اچھا تو ، تُو بھی انہی کا ساتھی ہے۔‘‘ انسپکٹر نے حسبِ روائت برجستہ کہا۔
’’ناں صاحب، اللہ اللہ کریں۔۔۔میں تو ان کے دونوں بیٹوں کو زیورات سمیت گلی کے باہر واپس اتار کر مین بازار آگیا تھا۔‘‘
’’او بڑوئے پھر تُو ان کو واپس کیوں نہیں لایا۔۔۔ ؟ ‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔
’’صاحب جی، میں نے رکنے کا پوچھا توبولے کہ تم جاؤ ہمیں دیر لگے گی۔۔۔ میں تو صاحب مزدور آدمی ہوں۔۔۔ اس لیے مزدوری کے لیے آگے نکل گیا‘‘۔۔۔ کوچوان نے اپنی صفائی پیش کی۔
’’ہُوں۔۔۔تُوایسا کرہمیں جلدی سے رام گلی لے چل۔۔۔ ‘‘ انسپکٹر نے تانگے پر سوار ہوتے ہوئے کہا ۔ پولیس انسپکٹر ، اعجاز دُکاندار، بابا جی اور دوپولیس والوں کے ہمراہ روانہ ہوا۔
’’پنجاب جیولرز ‘‘ پر تالے پڑنے کے بعد بھی وہاں لوگوں کا ہجوم برابر موجود رہا۔ شہر میں چوری اور دھوکہ دہی کی اس انوکھی واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں تانگہ رام گلی کی نکڑ پہ رُکا تو لوگوں نے خود ہی مطلوبہ مکان تک پولیس والوں کی پیشوائی کی۔پولیس صدر دروازے کا تالا توڑ کر اندر داخل ہوئی تو گھر کی ہر شے اپنی جگہ پر موجود تھی۔ انسپکٹر دونوں پولیس والوں کو نِچلی اور بالائی منزل کی اچھی طرح سے تلاشی لینے کا حکم دے کر خود سامنے کے بڑے کمرے سے ہوتا ہوا غسل خانے چلا گیا۔ واپس آتے ہوئے غیر ارادی طور پر باورچی خانے میں جھانکا تو چُولہے کے پاس انسپکٹر کوزیورات کے خالی ڈبے پڑے مل گئے۔ باہر نکلا تو پولیس والے گھر کی تلاشی مکمل کر کے فارغ ہوچکے تھے۔ زیورات کے آٹھ خالی ڈبے اعجاز زرگر سمیت سب کا منہ چِڑ ارہے تھے۔ انسپکٹر ان کولے کر اسی تانگے میں تھانے پہنچا تو تھانے دار چوہدری نذیر بڑی بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اس نے انسپکٹر سے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’بڑی دیر کردی انسپکٹر۔۔۔میں نے اتنی دیر سے آبادکاری مہاجرین کے کمشنر صاحب کو پابند کررکھا ہے ۔‘‘
’’آئی ایم سوری سَر۔۔۔دراصل معاملہ ہی کچھ ایسا تھا ‘‘۔ انسپکٹر نے یہ کہہ کر کمشنر صاحب کو سلیوٹ کیا اور باباجی بزرگوں کو پیش کرنے کی اجازت چاہی، جو اسے فوراً دے دی گئی ۔ با با جی کے ہمراہ اعجاز، اس کے ساتھی اور کوچوان کو بھی پیشی کے لیے بلایا گیا۔
’’سر یہ بابا جی اپنا نام سلیل چوہدری بتاتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں ہندو ہوں اور واردات کرنے والا سنیل چوہدری ان کا سگاّ بھتیجا ہے جو نام بدل کر اپنے دو دوستوں کے ساتھ واردات کے بعد فرار ہوچکا ہے۔ باباجی نے یہ بھی بتایا کہ سنیل انہیں نہیں پہنچانتا ۔ مگر یہ اسے پہچان گئے ہیں۔۔۔‘‘یہ کہہ کر انسپکٹر خاموش ہوگیا ۔
’’جی باباجی، اب آپ بتائیں کیا کہناچاہتے ہیں؟۔۔۔ ‘‘ تھانیدار نے پوچھا اور محرّر بیان لکھنے لگا۔
’’ کوتوال صاحب، میں وہ بدنصیب انسان ہوں جِسے اس بڑھاپے میں اتنی گھٹیا واردات کی شرمندگی برداشت کرناپڑی ہے۔۔۔میں جن اپنوں کی یاد اور محبت میں بیس سال تک تڑپتا رہا ۔۔۔وہ آج مجھے اس حال میں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔۔۔میں نے بچپن میں سنیل کو گودیوں کھِلایا ہے ۔ پھر جائیداد کی تقسیم پر سنیل کے باؤجی اور میں ،ہم دونوں بھائی ایسے ناراض ہوئے کہ میں نے بیس سال تک انیل کی حویلی کا دروازہ تک نہ چھّوا۔پھر میں سخت بیمار ہوگیا تھااور گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود بھائی کی محبت میں اکیلا ہی نکل کھڑا ہوا تھا۔ بٹوارے کے ہنگامے شروع ہوگئے۔ میں مر اد آبادسے ٹرین کے ذریعے انبالہ آرہا تھا اور چاہتا تھا کہ مرنے سے پہلے بھائی اور بچوں سے ایک بارمِل لوں۔ میں ٹرین کی برتھ پر دوائی پی کر لیٹا تھا،نہیں معلوم بے ہوشی میں کب تک پڑا سوتا رہا۔ٹرین کب اور کس وقت انبالہ پہنچی اور کب وہی ٹرین مہاجروں کولے کر پاکستان کے لیے روانہ ہوئی ؟ مجھے جب ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو سیٹ کے نیچے لہو لہان ، مسلمانوں کی لاشوں اور زخمیوں کے درمیان گِرا ہواپایا۔ ہوش آیا تو میرا انگ انگ دکھ رہا تھا۔کپڑے خون سے تر تھے۔۔۔شاید میں غنودگی میں برتھ سے گِر کر بے ہوش ہوگیا تھا۔پھر مجھے کچھ کچھ ہوش آنے لگا، میں نے دیدے پھاڑ کے دیکھا تو یوں لگا جیسے میں کوئی ڈراؤنا سپنا دیکھ رہا ہوں۔میں نے دیکھا کہ بوگی کے اندر چاروں اور لاشیں ہی لاشیں بکھری ہیں، زخمی پڑے کراہ رہے ہیں، برتھوں اور سٹیوں پر سے ٹپکتے خون اور حبس سے میرا دم گھٹ رہا تھا۔۔۔میرے سر کے زخم سے بہتا خون خشک ہوچکا تھا ، مگر چوٹ نے بے حال کردیاتھا۔ پھر مجھے پوری طرح یاد آگیا کہ میں جس روز گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر ٹرین میں بیٹھا تھا اسی روز فسادات نے زور پکڑ لیا تھا۔ مسلم آبادیوں والے چھوٹے بڑے شہروں میں نہتے مسلمانوں کاقتل عام شروع ہوگیا ، انہیں لوٹا اور مارا جارہا تھا۔۔۔ ان کے گاؤں اور بستیاں جلاکر راکھ کردی گئیں۔ ان کے بچوں اور عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے ہندؤوں کے ساتھ سکّھ بھی شامل ہوگئے تھے۔ میرا سفر زیادہ نہیں تھا۔۔۔اس لیے تسلی تھی کہ میں شام سے پہلے گھر پہنچ جاؤں گا ۔ایسے میں دوائی پی کر برتھ پر لیٹا تو مجھے کچھ ہوش نہ رہا‘‘۔۔۔
’’او بزرگو، اتنی لمبی کہانی کا اس واردات سے کیا تعلق ہے۔۔۔؟‘‘
پولیس انسپکٹر نے باؤ جی کو بیچ میں ٹوک کر پوچھا۔
’’ تعلق ہے صاحب جی۔۔۔ بہت گہرا تعلق۔۔۔ لاشوں اور زخمیوں سے اَٹی ہوئی اس بوگی کا دو دن اور دو راتوں کا سفر میری ساری زندگی پر بھاری ہے وہ سمے میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔۔۔ مسلمانوں کے محبت اور بھائی چارے کے بدلے ،میں ان کے لئے مَسلے اور کُچلے ہوئے پھول کلّیوں کا تحفہ لے کر پاکستان پہنچا تھا۔۔۔ میں مسلمانوں پر ان مظالم کا واحد ہندؤ گواہ ہوں۔ جب قتل و غارت گری کا یہ کھیل جاری تھا تب، میں بول نہیں سکتا تھا مگر دیکھ سکتا تھا،سُن سکتا تھا اور سوچ سکتا تھا۔۔۔ میں نے ساری زندگی اپنے بزرگوں کو مسلمانوں کے ساتھ پیار و محبت سے اکھٹے رہتے دیکھتاتھا ، بالکل بہن بھائیوں کی طرح مگر زَر اور زمین کی تقسیم نے انسان کو حیوان بنانے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔۔۔ میرا بھی چھوٹے بھائی انیل چوہدری کے ساتھ زَراور زمین کی تقسیم کا ایسا ہی جھگڑا تھا۔۔۔ بالکل ہندوستان اور پاکستان کی طرح۔۔۔ میں بڑا تھا، میں خون خرابے سے بچنے کے لیے قربانی دے کر الگ ہوگیااور بیس سال تک سگّے بھائی اور اس کے پریوار کی جدائی میں تڑپتا رہا۔ادھر ہندوستان بھی بڑا بھائی تھا۔۔۔ مگر وہ بڑے بھائی کا کردار نہ نِبھّاسکا۔۔۔ اس نے چھوٹے بھائی پاکستان کے نہتے اور لُٹے پُٹے اہلِ خانہ کو رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں چُن چُن کے مارا ۔ان کے معصوم بچوں کو ذبع کیا ان کا مال و اسباب لوٹ لیا کیونکہ مسلمانوں نے میری طرح اپنے بھائی سے اپنا حق مانگ لیاتھا اور ہندوستا ن سے علیحدہ ہوگئے تھے۔۔۔؟؟ ‘‘
’’ او جناب، یہ سب ہمیں پتہ ہے۔۔۔آپ اپنے ٹھگ بھتیجے اوراس کے غنڈے ساتھیوں کا بتاؤ کہ وہ کہاں ہیں؟۔۔۔زیورات کہاں ہیں۔۔۔ ؟‘‘ اب کے زرگر اعجاز بیچ میں بولا۔
’’صاحب، مجھے ان کے بارے میں بالکل نہیں معلوم۔۔۔وہ تو مجھے بھی دھوکے سے یہاں پھانس گئے ہیں۔۔۔میں آپ کو بتا رہا تھا کہ ان بدنصیب مسلمانوں کو راستے میں بھی نہ بخشا گیا۔۔۔ جہاں کہیں ٹرین رُکتی۔۔۔ہندؤوں اور سکھوں کے مُسلح جتھّے ان پر حملہ کردیتے۔۔۔میں یہ سب کچھ لاشوں کے درمیان، لاش بنا دیکھتا رہا۔۔۔ بولنا اور چیخنا چاہتا تھا مگر میری بولنے کی طاقت سَلب ہوچکی تھی۔ لُٹے پُٹے اور بچّے کُھّچے مہاجروں کے قافلے کے ساتھ میں بھی حادثاتی طور پر لاہور آگیا ، لاہور،جو بے گانہ ہونے کے باوجود مجھے اپنا اپنا سالگا۔ پاکستان کے مسلمانوں نے اپنے بے یارو مدد گار بہن بھائیوں کا استقبال جس والہانہ عقیدت اور اپنائیت سے کیا ،میں وہ سب منظر دیکھ کر روتا رہا ۔ انہوں نے مجھے بھی مہاجر جان کر پھولوں کے ہار پہنائے۔۔۔ چوما اور گلے لگایا۔۔۔نہ اونچ نیچ ،نہ ذات پات سب برابر۔۔۔سب مہاجر۔۔۔ ایسے میں مجھے اپنا بھائی انیل اور اس کا خاندان بار بار یاد آتا رہا۔۔۔ مگر میں مجبور اور بے بس کسی کو اپنا حالِ دل بھی نہ بتلا سکتا تھا۔میری ان گناہ گار آنکھوں نے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر کٹے ہوئے انسانی اعضاء سے بھری وہ ٹرین بھی دیکھی جو ہندوستان سے پاکستان تک مسلمانوں کا خون چھڑکتی آئی تھی۔۔۔ریلوے لائن کالی سے لال ہوچکی تھی۔۔۔مگر نفرت کی دہکائی گئی آگ کو دونوں طرف کابہتاانسانی خون بھی ٹھنڈا نہ کرپایا تھا۔۔۔شایدابھی کچھ کسَر باقی تھی کہ۔۔۔سنیل چوہدری ساتھیوں کے ساتھ پہلے سے لُٹے پاکستان کو اور لوٹنے کے لیے یہاں تک چلا آیاتھا ۔۔۔ اس نے ہمارے پرکھوں کے مُنہ پہ کالک مل دی ہے صاحب،۔۔۔اب میرا اپنوں اور ان کے خون پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔۔۔اس روز سے میرا جسم اور میری رُوح زخمی ہے۔۔۔مجھے پَل بھر کا بھی چین نصیب نہیں۔۔۔‘‘ تھانیدار اور کمشنر پہلو بدلتے رہیمگر بابا جی کا بیان جاری رہا۔
میں روزانہ والٹن کیمپ سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کے ایک تنہا بینچ پر جابیٹھتا اور سارا سارا دن لوگوں کو آتے جاتے دیکھتا رہتا۔۔۔ پھر ایک دن اسی ہجوم میں مجھے سنیل اور اس کے ساتھی مل گئے جو مجھے واردات میں استعمال کرنے کی نیّت سے اپنے ساتھ لے آئے۔اس دوران نہ میں بول سکتا تھا اور نہ میری دماغی حالت ایسی تھی کہ مجھے کچھ سمجھ آتی۔ اس گھٹیا اور سنگین واردات کے ارتکاب کے بعد میرے ہوش ٹھّکانے آگئے ہیں۔ میری آواز اور میری یاداشت سب لوٹ آئے ہیں اور میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا سنیل،میرا خون اتنا گھٹیا ہوسکتا ہے کہ اس نے مجھے گروی رکھ کر چوری کی ایسی سنگین واردات کر ڈالی ، اس پاکستان کے ساتھ ہاتھ کرگیا جِس کا تَن ، مَن ،دھَن پہلے ہی لوٹ لیا گیا تھا، جس کے بچے کھچیّ مہاجروں کو ہم نے خون کے آنسو رُلایا اور خون میں نہلا کے بھیجا۔ ہم نے بڑا پاپ کیاصاحب۔۔۔لے چلیں مجھے۔۔۔ اور بند کردیں جیل کی کال کوٹھڑی میں۔۔۔ کہمیں ہی مجرم ہوں اس واردات کا۔۔۔ جس میں لدّھیانے کے خالص سونے جیسے سنارنے میری سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے ان چُور اچکّوں کو بِنا جانے پہچانے ، زیورات دے دئیے۔۔۔ سزا دیجیئ مجھے کہ میں ان مسلمان بہن بھائیوں کا مجرم ہوں جو میرے اور اپنے بزرگوں کی نسل در نسل قائم محبت اور بھائی چارے کے امین ہیں۔ میں انہیں کٹتے، پِٹتے اور لُٹتے دیکھتا تو رہا مگر کسی کوبچانہ سکا۔۔۔ مجھے ڈال دیجیئ پاکستان کی جیل میں۔۔۔کہ یہی میرا اصل ٹھّکانہ ہے۔۔۔ میں اس ہندوستان واپس نہیں جانا چاہتا جہاں اپنوں کے ساتھ اتنا بڑاپاپ کیا گیا کہ جس پر انسانیت ساری زندگی شرماتی رہے گی۔میں آپ سب کا مجرم ہوں۔۔۔ اور اب میں ہی اس جرم کا پراسچت کروں گا۔۔۔ میں پاکستان ہی میں مروں گا اوراسی خاک میں اپنی خاک ملانے کی وصیّت کروں گا ، جہاں پُرکھوں کی روایات کا احترام ابھی زندہ ہے۔۔۔ ‘‘یہ سب کہتے ہوئے بابا جی کی آنکھوں میں چمک اورآواز میں بلا کا جوش و ولولہ سمٹ آیا تھا۔