دو کرنیں
تیری یادوں کی یہ بخشی ہوئی الھڑ خوشبو
دل کے ویرانے میں اس طرح سے در آتی ہے
جیسے بوسیدہ مقابر میں اجالے کی کرن
توڑ کر حلقۂ ظلمات کو لہراتی ہے
تجھ سے پہلے بھی کسی اجنبی راہی نے یہاں
دل بیتاب کو خوشبو کا ستم بخشا تھا
پھول سے ہونٹوں نے زخموں کے دہن کھولے تھے
نیم خوابیدہ نگاہوں نے وہ غم بخشا تھا
آج تک جس کو لیے گردش لمحات کے ساتھ
راہ گزاروں پہ بھٹکتا ہوں بگولوں کی طرح
اس تمنا میں کہ کٹ جائے گی یہ درد کی رات
سوچتا ہوں تیرے معصوم تبسم کی کرن
بن بھی سکتی ہے کبھی آخر شب کا پیغام