ڈی این اے پر نئی تحقیق نے ڈارون کے صدیوں سے قائم نظریے کو چیلنج کردیا

12 جنوری 2022کو بین الاقوامی جریدے’ نیچر ‘میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ڈیوس، اور جرمنی میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ڈیولپمنٹ بائیولوجی کی مشترکہ تحقیق کے نتائج شائع ہوئے ہیں۔ ان نتائج نے    جانداروں کے ڈی این اے میں ہونے والے تغیرات سے متعلق  کچھ ایسے انکشافات  کیے   جو ڈارون کے ارتقاء کے  نظریے کو یکسر  چیلنج کر سکتے ہیں۔  نتائج  محققین کو بہتر فصلوں کی  افزائش اور کینسر جیسی مہلک بیماری کے علاج میں معاون  ثابت ہونے کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔  اس تحقیق کے محققین کا خیال ہے کہ جانداروں کے ڈی این اے میں تغیرات بے ترتیب انداز میں نہیں  ہوتے۔ تبدیلیاں اس وقت ہوتی ہیں جب   جینوم کو نقصان  پہنچتا ہے،  اور غیر مرمت شدہ جینوم  نئی تبدیلی پیدا  کرتا  ہے۔   اس تحقیق میں سائنس دان یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا  جینوم میں تغیرات خالصتاً بے ترتیب  ہوتے ہیں یا   ان تغیرات کی کوئی اور  گہری وجہ ہے ۔ انہوں نے جو پایا وہ غیر متوقع تھا۔

نیچر جریدے کے اس مقالے کے مرکزی مصنف اور یو سی ڈیوس ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ سائنسز UC Davis Department of Plant Sciences کے اسسٹنٹ پروفیسر گرے منرو نے کہا، "ہم نے ہمیشہ جینوم میں  تغیرات کو بنیادی طور پر بے ترتیب سمجھا"   ہے۔ جبکہ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ جینوم میں تغیرات بالکل بھی بے ترتیب نہیں۔   تغیرات میں  ترتیب  اس طرح کی ہوتی ہے جو پودوں یا دیگر جانداروں کے لیے  بہت ہی فائدہ مند  ہو۔      یہ ڈی این اے میں تغیرات کو سمجھنے کا  بالکل ہی نیا انداز ہے۔ ان نتائج پر پہنچنے کے لیے سائنسدانوں نے تین سال تک  Arabidopsis Thaliana  کے  سینکڑوں ڈی این اے کی سیکونسنگ   کی۔ Arabidopsis Thaliana  ایک چھوٹی، پھولدار گھاس  ہے    جو  لیباٹری میں پودوں پر تجربات کے لیے  اکثر ہی پائی  جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے نسبتاً چھوٹے جینوم میں تقریباً 120 ملین بنیادی جوڑے ہوتے ہیں۔  اس کے مقابلے میں اگر انسانوں کے جینوم کو دیکھا جائے تو ، اس میں تقریباً 3 بلین بنیادی جوڑے   پائے جاتے ہیں۔ ۔

 اس تحقیق پر کام میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ  میں شروع ہوا جہاں محققین نے ایک محفوظ لیب ماحول میں پودوں کے نمونے اگائے۔ یہ ایسے پودے تھے جن میں ایسا نقص موجود تھا جس کی وجہ سے وہ عام قدرتی ماحول میں افزائش نہیں پا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے لیب کے کنٹرولڈ ماحول میں افزائش پائی۔ سینکڑوں کی تعداد میں Arabidopsis Thaliana  کی  سیکونسنگ کر کے افزائش کے دوران تقریباً دس لاکھ تغیرات دیکھنے کو ملے۔ غیر متوقع طور پر افزائش کے دوران جینوم میں تغیرات کا پیٹرن بے ترتیب نہیں تھا۔ یہ انکشاف توقعات کے بالکل ہی برعکس تھا۔        

میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے سائنسی ڈائریکٹر اور اس تحقیق کے سینئر مصنف ڈیٹیلف ویگل نے کہا، "پہلی نظر میں ہی  جو کچھ ہم نے پایا وہڈارون اور اس کے نقش قدم پر کام کرنے والے ماہرین کے روایتی  قائم شدہ نظریہ سے  متصادم تھا۔   کیونکہ تھیوری کے مطابق ابتدائی تغیرات مکمل طور پر بے ترتیب  ہوتے ہیں  اور صرف قدرتی انتخاب اس بات کا تعین کرتا ہے کہ جانداروں میں کون سے تغیرات  رونما ہوں گے۔"

                تحقیق کے دوران  جینوم میں تغیرات کی بے ترتیبی کے برعکس سائنسدانوں نے ڈی این اے کے ایسے حصوں کا مشاہدہ کیا جہاں تغیرات کی شرح بہت ہی کم تھی۔  جینوم کے ان حصوں میں لازمی جینز essential genes کی ضرورت سے زائد موجودگی کو دیکھ کر سائنسدان خاصے حیران ہوئے۔ جینوم کے یہ حصے بہت ہی اہم ہوتے ہیں  جو کہ تغیرات سے بڑی حد تک محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ جینوم کے یہی حصے کسی خرابی کے  وقت بھی خاصی حساسیت  کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈی این اے کی مرمت کو یہی حصے پر اثر بناتے ہیں۔

               سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کسی جاندار میں موجود ڈی این  اے  کا مختلف قسم کے پروٹین کے گرد لپٹنے کا انداز، تغیرات کے حوالے سے پیش گوئی کا ایک اہم  اشاریہ ہو سکتا ہے، جس سے  اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا کہ جین تغیرات کا سامنا کرے گا یا نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ ہم اس اشاریے کے ذریعے پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ کون سے جینز ممکنہ طور پر دوسرے کی نسبت تبدیل ہو سکتے ہیں۔  اس سب سے  ہم بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ڈی این اے کے اندر کیا چل رہا ہے۔     

اس تحقیق کے نتائج قدرتی انتخاب کے   ذریعے ارتقائی عمل کے چارلس ڈارون  کے  نظریے کو دلچسپ موڑ پر لے آئے ہیں۔ کیونکہ  ان سے پتہ چلتا ہے کہ پودا اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے اپنے جین کو تغیر سے بچانے کے لیے  بنا ہے نہ کہ اپنے جین میں غیر  مترتب تغیرات کے  ذریعے اپنی بقا کو ممکن بنانے کے لیے۔

               اس تحقیق کے ذریعے یہ دریافت کہ ڈی این اے کے کچھ حصے دوسروں کی نسبت کم تبدیل ہوتے ہیں، ایک بہت ہی اہم پیش رفت ہے۔ کیونکہ اس دریافت کو سامنے رکھتے ہوئے سائنسدان  مستقبل میں فصلوں میں بھی  بہتری لا سکتے ہیں اور انسانوں میں کینسر جیسی مہلک  بیماریوں  کی روک تھام کر سکتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات