دلوں میں کوئی ہوس کوئی آرزو بھی نہیں
دلوں میں کوئی ہوس کوئی آرزو بھی نہیں
میں سب لٹا چکا اب فکر آبرو بھی نہیں
زماں مکاں سے گزر کر ہوں عالم ہو میں
سفر تمام ہوا شوق جستجو بھی نہیں
ترے خیال کی سر مستیاں دماغ میں ہیں
یہ وہ نشہ ہے کہ منت کش سبو بھی نہیں
وہ بند آنکھوں میں رہ رہ کے جگمگاتا ہے
نماز عشق میں پابندئ وضو بھی نہیں
لہو بدن میں جو ہوتا تو کچھ ٹپکتا بھی
دہان زخم کو اب حاجت رفو بھی نہیں
شمیمؔ لے کے کہاں آئی زندگی مجھ کو
عجیب شہر ہے ہمدم کہاں عدو بھی نہیں