دل ان کو دیا تھا نہ دل آزار سمجھ کر
دل ان کو دیا تھا نہ دل آزار سمجھ کر
ہم پھنس گئے دھوکے میں وفادار سمجھ کر
خورشید کرے گا رخ ادھر بہر تماشا
محشر کو ترے گرمئ بازار سمجھ کر
اے کبک بہت کھا چکے ہیں ٹھوکریں ہر گام
چلنا تو مرے یار کی رفتار سمجھ کر
تاریکی مرقد سے نہ گھبراتا میں لیکن
خوف آ گیا فرقت کی شب تار سمجھ کر
وہ زار سیہ بخت ہوں دربانوں نے اس کے
ٹوکا نہ مجھے سایۂ دیوار سمجھ کر
یہ محو شہادت تھا کہ بے مرضیٔ قاتل
ابرو پہ گلا رکھ دیا تلوار سمجھ کر
یہ بے خود الفت تھا دم سیر گلستاں
شمشاد سے لپٹا قد دلدار سمجھ کر
کچھ روز انہیں سن لیجیو کمسن ہے ابھی تو
خود ترک کرے گا وہ بد اطوار سمجھ کر
عشاق کو جل مرنے کی ہوتی ہے تمنا
بجلی کو ترا پرتو رخسار سمجھ کر
دیکھی مرے یوسف کی جو ہیں گرمئ بازار
چپ ہو گئے کچھ دل میں خریدار سمجھ کر
نازک ہے بہت وہ کہیں بل کوئی نہ پڑ جائے
لپٹے کمر یار سے تلوار سمجھ کر
بلبل کی محبت کا قلقؔ بھید کھلا آج
عاشق ہے گل تر پہ یہ زردار سمجھ کر