دل پہ آفت آئی اب اک آن میں

دل پہ آفت آئی اب اک آن میں
زلف کچھ کہتی ہے اس کے کان میں


ساتھ اس کے غیر بھی آ جائے گا
کیوں کہ اس کافر کو لاؤں دھیان میں


قیمت دل چاہیے بوسے کئی
آگے جو آئے ترے ایمان میں


ہے یہ نفرت غیر سے لائے نہیں
رشک کا مضموں بھی ہم دیوان میں


پوچھتا کیا ہے ہماری زندگی
جیتے ہیں پر موت کے ارمان میں


طور مرنے کے نہ تھے سالکؔ ترے
ہاں مگر رکھتا ہے کیا انسان میں