دل کے مریض ذہن کے بیمار کیوں ہوئے

دل کے مریض ذہن کے بیمار کیوں ہوئے
زلفوں سے کھیلتے تھے سر دار کیوں ہوئے


چلمن میں اضطراب کی اک کیفیت تھی کیوں
جلوے نظر کے ساتھ گناہ گار کیوں ہوئے


دیوانہ اپنے آپ سے کرتا تھا کچھ کلام
لیکن یہ زرد آپ کے رخسار کیوں ہوئے


انگارے جس چمن میں کھلے تھے بجائے پھول
اس کی خزاں کے آپ عزادار کیوں ہوئے


بازار میں تو شہد کی بوتل گراں نہیں
تلخی ہے ناگوار تو مے خوار کیوں ہوئے


نازک بہت تھے پاؤں تو صحرائے عشق میں
کچھ دور ساتھ چل کے گناہ گار کیوں ہوئے


بل کھا رہے ہیں سبحہ و زنار اس لئے
احسانؔ اسیر گیسوئے خم دار کیوں ہوئے