دل مضطر سے الفت کی فراوانی نہیں جاتی
دل مضطر سے الفت کی فراوانی نہیں جاتی
نہیں جاتی ہے یعنی خوئے انسانی نہیں جاتی
یہ کیا دستور کیا آئین مے خانہ ہے اے ساقی
کہ رندوں کی یہاں تو بات بھی مانی نہیں جاتی
مجھے اے شیخ کچھ مدت تو بت خانے میں رہنے دے
بتوں میں بیٹھ کر دل سے مسلمانی نہیں جاتی
شناسا تھے سبھی اپنے کہ جب تک بخت یاور تھا
پڑی مشکل تو اب صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
یہ کیا کہتے ہو ہم ان کو کہاں ڈھونڈیں کدھر ڈھونڈیں
تلاش یار میں کیا خاک بھی چھانی نہیں جاتی
اگر گل کو چمن سے توڑ پھینکیں خار زاروں میں
تو پھر بھی اس کی وہ بوئے گلستانی نہیں جاتی
کسی مجبور فطرت سے گلہ کیوں کر کرے کوئی
کہ مار آستیں سے زہر افشانی نہیں جاتی
بھلا کر بھی وہ فن شاعری کی پر کٹھن راہیں
نشاطؔ اپنی طبیعت کی یہ جولانی نہیں جاتی